کیوں کہوں میں تری بے داد سے دل دکھتا ہے
آسمانِ ستم ایجاد سے دل دکھتا ہے
ٹھوکریں کھائی ہیں وہ راہِ وفا میں ہم نے
اب تو ہر چھوٹی سی اُفتاد سے دل دکھتا ہے
جب ستم تھا تو سکوں کا کوئی پہلو بھی تو تھا
جب نہیں کچھ بھی تو فریاد سے دل دکھتا ہے
ہائے وہ یاد کہ دیتی تھی کچھ اس دل کو قرار
اب یہ حالت کہ اسی یاد سے دل دکھتا ہے
خود بھی خوش رہ کے تجھے دیکھ کے خوش ہو دنیا
ایک ناشاد کا ناشاد سے دل دکھتا ہے
چار دن عمر تری وہ بھی کٹے رو رو کر
اے جوانی تری بنیاد سے دل دکھتا ہے
No comments:
Post a Comment