کس کو خیال یار نے رکھا اداس ہے
یہ کس کی پیاس کے لیے دریا اداس ہے
اب قہقہوں کی بھیٹر میں اندازہ کیا لگے
کوئی اداس ہے بھی تو کتنا اداس ہے
دہلیز پر شعور کی رکھ تو دیا قدم
لیکن وہ یونیفارم پہ بستہ اداس ہے
شاعر بنا کے لائیے کچھ مسخروں کو اب
مدت سے شاعری کی یہ دنیا اداس ہے
کاغذ پہ خاک ڈال دی تصویر بن گئی
تصویر ایسی جس کا کہ چہرہ اداس ہے
No comments:
Post a Comment