عجب سی کشمکش رہی ہے قلبِ عذر خواہ میں
مفاہمت نہ آ سکی مراسم نباہ میں
اُجاڑ کر کے دل مِرا کہا یہ اس نے ناز سے
نہ بن سکے گا آشیاں اب اس دلِ تباہ میں
یہ میکشی ہزار کوششوں کے باوجود بھی
نہ دے سکی وہ اک مزا جو تھا کسی نگاہ میں
وہ رمز جو کے جھانکتا ہے اب نگاہِ یاس سے
ہیں حسرتیں جو گر گئی ہیں آگہی کی تھاه میں
مرے لیے تو اتنا ہی ہے زندگی کا فلسفہ
یہ مختصر سا اک سفر ہے خواہشوں کی چاہ میں
No comments:
Post a Comment