سنا ہے تیری نظر میں حقیر میں بھی ہوں
خدا کا شکر کہ روشن ضمیر میں بھی ہوں
سند ملے گی زبان وادب میں کیوں نہ بھلا
کہ اک رسالے کا سابق مدیر میں بھی ہوں
جھکے ہیں اکبر و خلجی جنابِ عالی یہاں
جو آپ شاہِ جہاں تو فقیر میں بھی ہوں
بساطِ زیست پہ چلیے نہ مہرے، یاد رہے
کہ جس سے شاہ گرے وہ وزیر میں بھی ہوں
ہوئی جو شام تو آنسو بنی مری بھی غزل
نئے زمانے کا ادنیٰ سا میر میں بھی ہوں
امیر زادی نے توڑا یہ دل تو یاد آیا
کسی غریب کی آنکھوں کا نیر میں بھی ہوں
جو وہ ہے ایک تبسم تو میں ہوں اشکِ رواں
وہ بے مثال سہی بے نظیر میں بھی ہوں
سنور رہا ہوں کسی کی نگاہ میں انجم
کہ خوش گمانی کا یوں ہی اسیر میں بھی ہوں
سید انجم رومان

No comments:
Post a Comment