حق آگہی سر میدان پچھاڑ سکتی ہے
خیال و خواب کی جنت اجاڑ سکتی ہے
رخ حیات کی تنویر جاودانی ہے
یہ موت کیا میری صورت بگاڑ سکتی ہے
کسی کے جسم میں روح علی سما جائے
یہ قوم آج بھی خیبر اکھاڑ سکتی ہے
یقین و عزم و عمل ہی وہ تیغ ہے زاہد
جو حادثات کے سینوں کو پھاڑ سکتی ہے
No comments:
Post a Comment