یہ اور بات اسے لطف زندگی نہ ملا
اسیر اپنی انا میں وہ آدمی نہ ملا
کبھی ملا بھی تو بس اپنی بات کی اس نے
وہ بے غرض تو کسی شخص سے کبھی نہ ملا
تری حیات ہے نغمہ مری حیات افکار
مری حیات سے تو اپنی زندگی نہ ملا
کجا یہ دیں کے اجالےکجا یہ کرب جمود
سحر کے نور میں تو شب کی تیرگی نہ ملا
بہت تلاش کیا زندگی نہ ہاتھ آئی
جہاں میں ہم کو کہیں کستِ دايمی نہ ملا
ہمارا ہوتا جو دمساز، ہمنوا ، ہمدم
ہمارے شہر میں ایسا ہمیں کوئی نہ ملا
ملے تو شیخ و برہمن، ولی مجاہد سب
بسنت راہ ِ وفا پر کوئی کبھی نہ ملا
No comments:
Post a Comment