Urdu Deccan

Friday, February 24, 2023

بدر عالم خلش

یوم پیدائش 02 فروری 1962

ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے 
میں جس سے آنکھیں چرا رہا ہوں جو میری نیندیں چرا رہی ہے وہ شاعری ہے 

جو آگ سینے میں پل رہی ہے مچل رہی ہے بیاں بھی ہو تو عیاں نہ ہوگی 
مگر ان آنکھوں کے آبلوں میں جو جل رہی ہے پگھل رہی ہے وہ شاعری ہے 

تھا اک تلاطم مئے تخیل کے جام و خم میں تو جلترنگوں پہ چھڑ گئی دھن 
جو پردہ دار نشاط غم ہے جو زخمہ کار نواگری ہے وہ شاعری ہے 

یہاں تو ہر دن ہے اک سونامی ہے ایک جیسی ہر اک کہانی تو کیا سنو گے 
مگر وہ اک خستہ حال کشتی جو مثل لاشہ پڑی ہوئی ہے وہ شاعری ہے 

ہے بادلوں کے سیاہ گھوڑوں کے ساتھ ورنہ ہوا کی پرچھائیں کس نے دیکھی 
دھلی دھلی دھوپ کے بدن پر جو چھاؤں جیسی سبک روی ہے وہ شاعری ہے 

وہی تو کل سرمئی چٹانوں کے درمیاں سے گزر رہی تھی بپھر رہی تھی 
وہی ندی اب تھکی تھکی سی جو ریت بن کر بکھر گئی ہے وہ شاعری ہے 

گھڑی کی ٹک ٹک دلوں کی دھک دھک سے بات کرتی اگر تنفس مخل نہ ہوتا 
تو ایسی شدت کی گو مگو میں جو ہم کلامی کی خامشی ہے وہ شاعری ہے 

جو قہقہوں اور قمقموں سے سجی دھجی ہے اسی گلی سے گزر کے دیکھو 
اندھیرے زینوں پہ سر بہ زانو جو بیکسی خون تھوکتی ہے وہ شاعری ہے 

نہ ہجرتوں کے ہیں داغ باقی نہ اپنی گم گشتگی کا کوئی سراغ باقی 
سو اب جو طاری ہے سوگواری جو اپنی فطرت سے ماتمی ہے وہ شاعری ہے 

ہے لالہ زار افق سے آگے ابھی جو دھندلا سا اک ستارہ ہے استعارہ 
جو ہوگی تیرہ شبی میں روشن وہ کوئی زہرہ نہ مشتری ہے وہ شاعری ہے 

گذشتگانی ہے زندگانی نہ یہ ہوا ہے نہ ہے یہ پانی فقط روانی 
جو واقعاتی ہے وہ ہے قصہ جو واقعی ہے وہ شاعری 

جو حسن منظر ہے کینوس پر وہ رنگریزی نہیں برش کی تو اور کیا ہے 
اب اس سے آگے کوئی نظر جس جہان معنی کو ڈھونڈھتی ہے وہ شاعری ہے 

یہ شعر گوئی وہ خود فراموش کیفیت ہے جہاں خودی کا گزر نہیں ہے 
خودی کی باز آوری سے پہلے جو بے خودی کی خود آگہی ہے وہ شاعری ہے 

جو وارداتی صداقتوں کی علامتیں ہیں حدیث دل کی روایتیں ہیں 
اسی امانت کو جو ہمیشہ سنبھالتی ہے سنوارتی ہے وہ شاعری ہے 

انا کے دم سے ہے ناز‌ ہستی انا کے جلووں کا آئینہ دار ہے ہر اک فن
وہ خود نمائی جو خوش نما ہے مگر جو تھوڑی سی نرگسی ہے وہ شاعری ہے 

جو بات نثری ہے نظریاتی ہے جدلیاتی ہے وہ مکمل کبھی نہ ہوگی 
مگر جو مجمل ہے اور موزوں ہے اور حتمی اور آخری ہے وہ شاعری ہے 

تجارتوں کی سیاستیں اب ادب کی خدمت گزاریوں میں لگی ہوئی ہیں 
جو جی رہا ہے جو گا رہا ہے مشاعرہ ہے جو مر رہی ہے وہ شاعری ہے 

جو دیدہ ریزی بھی جاں گدازی کے ساتھ ہوگی تو لفظ سارے گہر بنیں گے 
خلشؔ یقیناً یہ صرف زور قلم نہیں ہے جو شاعری ہے وہ شاعری ہے

بدر عالم خلش



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...