غم حیات کہاں تک تجھے مناؤں میں
نشاط وکیف کے ساماں کہاں سے لاؤں میں
بس اک صدا کہ دلِ مضطرب سے اٹھتی ہے
نہ تم کو یاد رکھوں اب نہ بھول پاؤں میں
تمام عمر رفیقوں کے درمیاں گزری
کچھ ایسا ہو کہ کبھی خود سے مل بھی پاؤں میں
بہت اُٹھائے ترے ناز زندگی اب تو
متاع درد بتا اور کیا کماؤں میں
زمانہ اپنے فتور نظر پہ شاداں ہے
بس ایک فکر ہر اک پل ، اسے جگاؤں میں
No comments:
Post a Comment