یوں بچھڑ جاؤں گا تجھ سے میں نے یہ سوچا نہ تھا
قربتوں میں فاصلوں کا کوئی اندازہ نہ تھا
جانے پہچانے ہوئے چہرے بھی سب تھے اجنبی
کتنا تنہا تھا وہاں بھی میں جہاں تنہا نہ تھا
اپنے دل کا زہرِغم آنکھوں سے جو چھلا گیا
وہ سمندر تھا مگر میری طرح گہرا نہ تھا
زندگی ہم بھی تری قدروں کے وارث تھے مگر
اپنی قسمت میں فقط دیوار تھی سایا نہ تھا
روٹھنے والے مری چاہت کا اندازہ تو کر
اس قدر تو میں نے خود کو بھی کبھی چاہا نہ تھا
زخم بھی جس نے دیئے ہیں مجھ کو غیروں کی طرح
وہ مرا اپنا تھا لیکن مجھ کو پہچانا نہ تھا
پیار آخر کیوں نہ آتا اپنے قاتل پر مجھے
میرے اس کے درمیاں کیا خون کا رشتا نہ تھا
بے وفائی کی شکایت تھی مجھے اس سے مگر
اس کی مجبوری کو جب تک بدر میں سمجھا نہ تھا
No comments:
Post a Comment