جانے کیوں کر اس قدر سہما ہوا ہے آئینہ
آئینے کو دیکھ کر بھی ڈر رہا ہے آئینہ
کیا کوئی معصوم سی صورت نظر میں آ گئی
کیوں سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہے آئینہ
آپ اپنے آپ کو اس سے چھپا سکتے نہیں
آپ کی اک اک ادا سے آشنا ہے آئینہ
خواہشوں کے جال میں الجھا ہوا ہے ہر بشر
کون کتنا بے غرض ہے جانتا ہے آئینہ
آشیاں میرا جلایا نوچ ڈالے پر مرے
آپ کو اس حال میں بھی دیکھتا ہے آئینہ
اس لئے سب نے نگاہوں سے گرایا ہے اسے
جس کی جیسی شکل ہے وہ بولتا ہے آئینہ
ہاتھ میں پتھر لئے کیوں بڑھ رہے ہو اس طرف
چوٹ کھا کر خود بھی پتھر بن چکا ہے آئینہ
ظلم کی تلوار کے سائے میں بھی ہوں سجدہ ریز
انوریؔ ہر حال میں پہچانتا ہے آئینہ
انوری بیگم
No comments:
Post a Comment