بے خطر سارا سفر اور بے ضرر سا راستہ
تم سمجھتے ہو کہ ہے یہ انبیا کا راستہ
چوک تم سےہو گئی ہے مصلحت کے چوک پر
سہل رستہ دیکھ کر چھوڑا جو سیدھا راستہ
کچھ سناؤ اس تذبذب کی گلی کی داستاں
کس نے رکھا یاد اور پھر کون بھولا راستہ؟
راہِ حق میں درہِ جاں سے گزر کر دوستو
ایک لمحے میں سمیٹو عمر بھر کا راستہ
ایک لمحے کیلئے خود موت سے جاکر ملو
زندگی سے پھر ملا دو زندگی کا راستہ
یاس کی شاموں میں جب تشکیک کی آندھی چلے
لا الہ کے نور سے پھر دیکھ لینا راستہ
دستِ موسی اور پھر زورِ عصا بھی چاہیے
ہر کس و نا کس کو کب دیتا ہے دریا راستہ
پیر ، ملا اور لیڈر کے مقلد کیا بنے
پھرنہ کھولیں اپنی آنکھیں پھر نہ دیکھا راستہ
شاہدریاض عباس
No comments:
Post a Comment