تیری محفل میں موجود سب ہیں ترے جام کے منتظر
ساقیا ہم مگر ہیں یہاں ایک گمنام کے منتظر
سچ ہے مدت سے انکی نہیں کچھ خبر ہے ملی ہاں مگر
یہ بھی سچ ہے سدا ہم رہے انکے پیغام کے منتظر
صبح سے پوچھتا ہوں میں ان سے مگر کچھ بتاتے نہیں
جانے کیا بات ہے آج ہیں صبح سے شام کے منتظر
حاکمِ وقت کے کان میں یہ خبر آپ ڈالیں ذرا
آج بھی شہر میں کتنے مزدور ہیں کام کے منتظر
کیا سبب ہے قمرآج نکلا نہیں بس یہی سوچ کر
ہم زمیں پر کھڑے کب سے ہیں رونق بام منتظر
آپ کا شکریہ آپ آئے تو یہ شام دلکش ہوئی
مدتوں سے تھے ہم ایسی ہی اک حسیں شام کے منتظر
دیکھیے کس کو آزاد ملتا ہے کیا اس کے دربار سے
لے کے حسرت کھڑے ہم بھی صف میں ہیں انعام کے منتظر

No comments:
Post a Comment