ہر دل کی تڑپ روح کا سامان ہمِیں تھے
اس شہرِ طلسمات کے سلطان ہمیں تھے
ہر چشمِ فروزاں میں عیاں تاب تھی اپنی
ہر اُلجھی ہوئی زُلف کے پُرسان ہمیں تھے
کھِلتے تھے خزاں دیدہ چمن دیکھ کے جس کو
اس نقشِ لطافت کی فقط جان ہمیں تھے
ہر کوئی طلب گارِ جوئے مالِ غنیمت
ویرانئ گلشن پہ پریشان ہمیں تھے
آئے نہ سمجھ اپنی طبیعت کے تقاضے
سب پا کے بھی اُس شہر میں ویران ہمیں تھے
ہر پیکرِ ذیشان ہی سجدے میں پڑا تھا
خوش فہمئ شیطان کا نقصان ہمِیں تھے
سب لوگ ہی عاصیؔ تھے پُجاری تھے ہوس کے
بس حُسنِ طرح دار پہ قربان ہمیں تھے
No comments:
Post a Comment