کیا ہے بارہا اس کا بھی تجربہ ہم نے
بھلائی کرکے سُنا ہے بُرا بھلا ہم نے
زمانہ داغ ہمارے دکھا رہا تھا ہمیں
دکھا دیا ہے زمانے کو آئینہ ہم نے
ہماری راہ میں کانٹے بچھائے تھے جس نے
اُسی کو بھیجا ہے پھولوں کا ٹوکرا ہم نے
اندھیرے ہم سے خفا ہو گئے ہیں دنیا کے
کہ اک چراغ سے رشتہ بنا لیا ہم نے
تھے کیسے لوگ وطن سے جو کر گئے ہجرت
خطا تھی اُن کی مگر پائی ہے سزا ہم نے
تو اُس بدن کی مہک ساتھ کیوں نہیں لائی
تجھی کو سونپا تھا یہ کام اے صبا ہم نے
ہمارے شعروں سے سب رازؔ کھُل گیا ورنہ
چُھپا کے رکھا تھا دل کا معاملہ ہم نے
No comments:
Post a Comment