جو سمندر ہمیں گھنگھور گھٹا دیتا ہے
وہی قطروں کو بھی دریا سے ملا دیتا ہے
جدت آموز زمانہ ہمیں کیا دیتا ہے
راہ کی دھول سمجھتا ہے اڑا دیتا ہے
مفلسی کتنی تڑپ اٹھتی ہے بیتابی سے
آ کے سائل جو کبھی در پہ صدا دیتا ہے
ضبط کا پیڑ گھنا دل میں لگائے رکھنا
یہ گھنا پیڑ سدا ٹھنڈی ہوا دیتا ہے
تہہ میں جاؤ گے تو موتی بھی ملیں گے تم کو
بلبلہ سارے خزانے کا پتہ دیتا ہے
چین سے رہتا ہے بنیاد کا پتھر اعجازؔ
زلزلہ اونچی عمارت کو گرا دیتا ہے
اعجاز مانپوری
No comments:
Post a Comment