تجھ سے ملنا محال ہے پھر بھی
دل میں تیرا خیال ہے پھر بھی
ہم پہ آئے نہ کیوں زوال مگر
عشق تو لازوال ہے پھر بھی
جانتا ہوں کوئی جواب نہیں
ان لبوں پر سوال ہے پھر بھی
آنکھ روتی ہے خون کے آنسو
دل کے اندر ملال ہے پھر بھی
مبارک علی انمول
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...
No comments:
Post a Comment