اللہ کرے درد ترا سب پہ عیاں ہو
اے دشمنِ جاں تیرے جگر کا بھی زیاں ہو
حاوی ترے اعصاب پہ ہو عشق کا آسیب
اطراف مرے ہونے کا تجھ کو بھی گماں ہو
کیا میں ہی ترے ہجر میں روتا رہوں پہیم
چشمہ تری آنکھوں سے بھی اشکوں کا رواں ہو
غافل نہ رہوں ظلم وستم سے کبھی تیرے
شعروں میں مرے تیری جفاؤں کا بیاں ہو
اک دوجے کے بن حال یہ ہو جائے ہمارا
جینا تو الگ بات ہے مرنا بھی گراں ہو
مرکوز مری آنکھ رہے چہرے پہ تیرے
تو ساتھ ہو جب روح نکلنے کا سماں ہو
ہیں شہرِ خموشاں میں بھی ہنگامے بہت شاد
لے چل مجھے اس جا کہ جہاں امن و اماں ہو
No comments:
Post a Comment