یہ اور بات ہے کہ سہارا نہیں بنے
لیکن کسی کی راہ کا کانٹا نہیں بنے
یاروں کے ہم نے عیب چھپائے ہیں بارہا
ان کو بچایا خود بھی تماشہ نہیں بنے
دشوار راستوں کا انہیں تجربہ نہیں
منزل جو لوگ بن گئے رستا نہیں بنے
انسان ہی تو بن نہیں پائے جو اہم تھا
ویسے تو لوگ بننے کو کیا کیا نہیں بنے
تم سے بڑی امید لگا رکھی تھی مگر
تم بھی تو میرے حق میں مسیحا نہیں بنے
نصرتؔ وہ ہم سے اس لیے ناراض ہیں کہ ہم
ان کی بلائی بھیڑ کا حصہ نہیں بنے
نصرت عتیق
No comments:
Post a Comment