Urdu Deccan

Friday, February 19, 2021

محمد اظہار الحق

 یوم پیدائش 14 فروری 1948


قرطاس و قلم ہاتھ میں ہے اور شب مہ ہے

اے رب ازل کھول دے جو دل میں گرہ ہے 


اطراف سے ہر شب سمٹ آتی ہے سفیدی

ہر صبح جبیں پر مگر اک روز سیہ ہے 


میں شام سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو بہتر

جنگل میں ہوں اور سر پہ مرے بار گنہ ہے 


مہنگی ہے جہاں دھات مرے سرخ لہو سے

زردی کے اس آشوب میں تو میری پنہ ہے 


منہ زور زمانوں کی ذرا کھینچ لے باگیں

میرے کسی بچھڑے ہوئے کی سالگرہ ہے


محمد اظہار الحق


حسن اکبر کمال

 یوم پیدائش 14 فروری 1946


دنیا میں کتنے رنگ نظر آئیں گے نئے

ہوں دید کے عمل میں اگر زاویے نئے


چہرہ بھی آنسوؤں سے تر و تازہ ہو گیا

بارش کے بعد سبزہ و گل بھی ہوئے نئے


بدلی ہے یہ زمیں کہ مری آنکھ وہ نہیں

بیگانہ شہر و دشت ہیں اور راستے نئے


اس کو بدل گیا نشۂ خود سپردگی

مانوس خال و خد مجھے یکسر لگے نئے


سب سے جدا ہیں گر مرے نو زائیدہ خیال

جس نے دیئے خیال وہ الفاظ دے نئے

 

حسن اکبر کمال


شفیق عابدی

 یوم پیدائش کی مبارک باد

14 فروری 1958


بچ کر کہاں میں جاؤں گا تیری نگاہ سے

رہتا ہوں دور اس لئے ہر اک گناہ سے

کھاتا رہے گا ٹھوکریں در در کی اے شفیق

جس کے قدم ہٹے ہیں صداقت کی راہ سے


شفیق عابدی


فاروق نازکی

 یوم پیدائش 14 فروری 1940


درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ

وصل کی دھوپ نکھرتی ہے مگر آہستہ


آسماں دور نہیں ابر ذرا نیچے ہے

روشنی یوں بھی بکھرتی ہے مگر آہستہ


تم نے مانگی ہے دعا ٹھیک ہے خاموش رہو

بات پتھر میں اترتی ہے مگر آہستہ


تیری زلفوں سے اسے کیسے جدا کرتا میں

زندگی یوں بھی سنورتی ہے مگر آہستہ


فاروق نازکی


اے عزیز

یوم پیدائش 13 فروری 1973


میں انساں کی بھلائی چاہتا ہوں

خد ایا رہنمائی چاہتا ہوں


مجھے اپنی غلامی کا شرف دے

میں ہر غم سے رہائی چاہتا ہوں


نہیں کچھ مانگتا میں تم سے لیکن

محبت ابتدائی چاہتا ہوں


مجھے اپنی رفاقت کا شرف دے

تجھے میں انتہائی چاہتا ہوں


محبت مٹ نہ جائے اس جہاں سے

میں ایسی روشنائی چاہتا ہوں


اے عزیز


فیض احمد فیض

 یوم پیدائش 13 فروری 1911


گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے


قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے


کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے


بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے


جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے


حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب

گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے


مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے


فیض احمد فیض


صفی اورنگ آبادی

 یوم پیدائش 12 فروری 1893


دوست خوش ہوتے ہیں جب دوست کا غم دیکھتے ہیں

کیسی دنیا ہے الٰہی جسے ہم دیکھتے ہیں


دیکھتے ہیں جسے بادیدۂ نم دیکھتے ہیں

آپ کے دیکھنے والوں کو بھی ہم دیکھتے ہیں


بے محل اب تو ستم گر کے ستم دیکھتے ہیں

کیسے کیسوں کو برے حال میں ہم دیکھتے ہیں


ہنس کے تڑپا دے مگر غصے سے صورت نہ بگاڑ

یہ بھی معلوم ہے ظالم تجھے ہم دیکھتے ہیں


لوگ کیوں کہتے ہیں تو اس کو نہ دیکھ اس کو نہ دیکھ

ہم کو اللہ دکھاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں


باغ کی سیر نہ بازار کی تفریح رہی

ہم تو برسوں میں کسی دن پہ قدم دیکھتے ہیں


لعل ہیرے سہی تیرے لب دنداں ادھر آ

توڑ لیتے تو نہیں ہیں انہیں ہم دیکھتے ہیں


شل ہوئے دست طلب بھول گئے حرف سوال

آج ہم حوصلۂ اہل کرم دیکھتے ہیں


میں تماشا سہی لیکن یہ تماشا کیسا

مفت میں لوگ ترے ظلم و ستم دیکھتے ہیں


آپ کی کم نگہی حسن بھی ہے عیب بھی ہے

لوگ ایسا بھی سمجھتے ہیں کہ کم دیکھتے ہیں


ہم کو ٹھکراتے چلیں آپ کی محفل میں عدو

کیا انہیں کم نظر آتا ہے یا کم دیکھتے ہیں


چار لوگوں کے دکھانے کو تو اخلاق سے مل

اور کچھ بھی نہیں دنیا میں بھرم دیکھتے ہیں


میرا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے وہاں

دیکھیں جو لوگ وجود اور عدم دیکھتے ہیں


آنکھ میں شرم کا پانی مگر اتنا بھی نہ ہو

دیکھ ان کو جو تری آنکھ کو نم دیکھتے ہیں


ہو تو جائے گا ترے دیکھنے والوں میں شمار

اول اول ہی مگر اپنے کو ہم دیکھتے ہیں


راستہ چلنے کی اک چھیڑ تھی تو آقا نہ آ

ہم تو یہ قول یہ وعدہ یہ قسم دیکھتے ہیں


دیکھنا جرم ہوا ظلم ہوا قہر ہوا

یہ نہ دیکھا تجھے کس آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں


آنکھ ان کی ہے دل ان کا ہے کلیجہ ان کا

رات دن جو مجھے بادیدۂ نم دیکھتے ہیں 


اپنا رونا بھی صفیؔ راس نہ آیا ہم کو

اس کو شکوہ ہے کہ آنکھیں تری نم دیکھتے ہیں 


صفی اورنگ آبادی


اعجاز رحمانی

 یوم پیدائش 12 فروری 1940


اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے

مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے


اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی

وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے


کیا جو اس نے مرے ساتھ نا مناسب تھا

معاف کر دیا میں نے خدا معاف کرے


وہ شخص جو کسی مسجد میں جا نہیں سکتا

تو اپنے گھر میں ہی کچھ روز اعتکاف کرے


وہ آدمی تو نہیں ہے سیاہ پتھر ہے

جو چاہتا ہے کہ دنیا مرا طواف کرے


وہ کوہ کن ہے نہ ہے اس کے ہاتھ میں تیشہ

مگر زبان سے جب چاہے وہ شگاف کرے


میں اس کے سارے نقائص اسے بتا دوں گا

انا کا اپنے بدن سے جدا غلاف کرے


جسے بھی دیکھیے پتھر اٹھائے پھرتا ہے

کوئی تو ہو مری وحشت کا اعتراف کرے


میں اس کی بات کا کیسے یقیں کروں اعجازؔ

جو شخص اپنے اصولوں سے انحراف کرے


اعجاز رحمانی


Thursday, February 11, 2021

حکیم محمد اجمل خان شیدا

 یوم پیدائش 12 فروری 1868


درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی


ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت

میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی


کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق

میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی


کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے

پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی


جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ

موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی 


انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے

گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی


محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں

برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی


میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں

انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی


فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے

بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی


باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے

ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی


مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں

ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی

یوم پیدائش 12 فروری 1868


درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی

موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی


ہوگی جب نالوں کی اپنے زیر گردوں بازگشت

میرے درد دل کی شہرت جا بجا ہو جائے گی


کوئے جاناں میں اسے ہے سجدہ ریزی کا جو شوق

میری پیشانی رہین نقش پا ہو جائے گی


کاکل پیچاں ہٹا کر رخ سے آؤ سامنے

پردہ دار حسن محفل میں ضیا ہو جائے گی


جب یہ سمجھوں گا کہ میری زیست ہے ممنون مرگ

موت میری زندگی کا آسرا ہو جائے گی 


انتظار وصل کرنا عمر بھر ممکن تو ہے

گو نہیں معلوم حالت کیا سے کیا ہو جائے گی


محتسب اور ہم ہیں دونوں متفق اس باب میں

برملا جو مے کشی ہو بے ریا ہو جائے گی


میں ابھی سے جان دے دوں گا جو راہ عشق میں

انتہا مجنوں کی میری ابتدا ہو جائے گی


فاش راز دل نہیں کرتا مگر یہ ڈر تو ہے

بے خودی میں آہ لب سے آشنا ہو جائے گی


باریاب خواب گاہ ناز ہونے دو اسے

ان کی زلفوں میں پریشاں خود صبا ہو جائے گی


مقصد الفت کو کر لو پہلے شیداؔ دل نشیں

ورنہ ہر آہ و فغاں بے مدعا ہو جائے گی


حکیم محمد اجمل خاں شیدا


باقر مہدی

 یوم پیدائش 11 فروری 1927


چراغ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں

ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں


نہ کوئی راہ گزر ہے نہ کوئی ویرانہ

غم حیات میں سب کچھ لٹا کے بیٹھے ہیں


جنوں کی حد ہے کہ ہوش و خرد کی منزل ہے

خبر نہیں ہے کہاں آج آ کے بیٹھے ہیں


کبھی جو دل نے کہا اب چلو یہاں سے چلیں

تو اٹھ کے عالم وحشت میں جا کے بیٹھے ہیں


یہ کس جگہ پہ قدم رک گئے ہیں کیا کہیے

کہ منزلوں کے نشاں تک مٹا کے بیٹھے ہیں


باقر مہدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...