Urdu Deccan

Sunday, March 28, 2021

بیخود دہلوی

 یوم پیدائش 21 مارچ 1863


دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر

جو ادھر دل میں ہے یا رب وہ ادھر پیدا کر


دود دل عشق میں اتنا تو اثر پیدا کر

سر کٹے شمع کی مانند تو سر پیدا کر


پھر ہمارا دل گم گشتہ بھی مل جائے گا

پہلے تو اپنا دہن اپنی کمر پیدا کر


کام لینے ہیں محبت میں بہت سے یا رب

اور دل دے ہمیں اک اور جگر پیدا کر


تھم ذرا اے عدم آباد کے جانے والے

رہ کے دنیا میں ابھی زاد سفر پیدا کر


جھوٹ جب بولتے ہیں وہ تو دعا ہوتی ہے

یا الٰہی مری باتوں میں اثر پیدا کر


آئینہ دیکھنا اس حسن پہ آسان نہیں

پیشتر آنکھ مری میری نظر پیدا کر


صبح فرقت تو قیامت کی سحر ہے یا رب

اپنے بندوں کے لیے اور سحر پیدا کر


مجھ کو روتا ہوا دیکھیں تو جھلس جائیں رقیب

آگ پانی میں بھی اے سوز جگر پیدا کر


مٹ کے بھی دوری گلشن نہیں بھاتی یا رب

اپنی قدرت سے مری خاک میں پر پیدا کر


شکوۂ درد جدائی پہ وہ فرماتے ہیں

رنج سہنے کو ہمارا سا جگر پیدا کر


دن نکلنے کو ہے راحت سے گزر جانے دے

روٹھ کر تو نہ قیامت کی سحر پیدا کر


ہم نے دیکھا ہے کہ مل جاتے ہیں لڑنے والے

صلح کی خو بھی تو اے بانئ شر پیدا کر


مجھ سے گھر آنے کے وعدے پر بگڑ کر بولے

کہہ دیا غیر کے دل میں ابھی گھر پیدا کر


مجھ سے کہتی ہے کڑک کر یہ کماں قاتل کی

تیر بن جائے نشانہ وہ جگر پیدا کر


کیا قیامت میں بھی پردہ نہ اٹھے گا رخ سے

اب تو میری شب یلدا کی سحر پیدا کر


دیکھنا کھیل نہیں جلوۂ دیدار ترا

پہلے موسیٰ سا کوئی اہل نظر پیدا کر


دل میں بھی ملتا ہے وہ کعبہ بھی اس کا ہے مقام

راہ نزدیک کی اے عزم سفر پیدا کر


ضعف کا حکم یہ ہے ہونٹ نہ ہلنے پائیں

دل یہ کہتا ہے کہ نالے میں اثر پیدا کر


نالے بیخودؔ کے قیامت ہیں تجھے یاد رہے

ظلم کرنا ہے تو پتھر کا جگر پیدا کر


بیخود دہلوی


شمشاد شاؔد

 یوم پیدائش کی مبارک باد

21م مارچ ۔۔۔۔


دُکھوں کو ایڑ لگاتے ہیں غم سے کھیلتے ہیں

وہ جیتتے ہیں جو لوح و قلم سے کھیلتے ہیں


نہ جانے کس لئے اہلِ کرم سے کھیلتے ہیں

زمانے والے دلِ محترم سے کھیلتے ہیں


یہی رواج ہے شہرِ ستم کا صدیوں سے

جو شاد ہیں وہ اسیرانِ غم سے کھیلتے ہیں


قسم ہے ان کی قسم کا یقین مت کرنا

منافقین خدا کی قسم سے کھیلتے ہیں


مخالفین میں یہ بات مشتہر کر دو

ہے مات ان کی یقینی جو ہم سے کھیلتے ہیں


کہ اپنے اپنے عقیدوں کو طاق پر رکھ کر

جنابِ شیخ و برہمن دھرم سے کھیلتے ہیں


اے شاؔد رنج و الم کا نہیں ہے خوف ہمیں

ہم ابتدا ہی سے رنج و الم سے کھیلتے ہیں


شمشاد شاؔد


جاوید اقبال

 یوم پیدائش 20 مارچ 


بظاہر زیست سے شکوہ نہیں ہے 

ہے سب اچھا مگر، اچھا نہیں ہے 


میں کیسی بستیوں میں آگیا ہوں 

یہاں دیواریں ہیں، سایہ نہیں ہے 


فقط گھنٹی سے ہی پہچانتا ہوں 

تِرا ہے فون یا تیرا نہیں ہے


زمین و آسماں دھندلے پڑے ہیں 

یہ آنسو آنکھ سے گرتا نہیں ہے 


یہ سچ ہے میرا برتاؤ ہے بدلا

مگر تُو بھی تو پہلے سا نہیں ہے


جو سوچا رات بھر تجھ کو، لگا یہ

مِرا چہرہ تھا جو، میرا نہیں ہے 


جاوید اقبال


سرسوتی سرن کیف

 یوم پیدائش 20مارچ 1922


ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں

ہمیں فریاد کی عادت ہے ہم فریاد کرتے ہیں


متاع زندگانی اور بھی برباد کرتے ہیں

ہم اس صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں


ہواؤ ایک پل کے واسطے للہ رک جاؤ

وہ میری عرض پر دھیمے سے کچھ ارشاد کرتے ہیں


نہ جانے کیوں یہ دنیا چین سے جینے نہیں دیتی

کوئی پوچھے ہم اس پر کون سی بیداد کرتے ہیں


نظر آتا ہے ان میں بیشتر اک نرم و نازک دل

مصائب کے لیے سینے کو جو فولاد کرتے ہیں


خدا کی مصلحت کچھ اس میں ہوگی ورنہ بے حس بت

کسے شاداں بناتے ہیں کسے ناشاد کرتے ہیں


نہیں دیکھا کہیں جو ماجرائے عشق میں دیکھا

کہ اہل درد چپ ہیں چارہ گر فریاد کرتے ہیں


اسیر دائمی گر دل نہ ہو تو اور کیا ہو جب

کہیں وہ مسکرا کر جا تجھے آزاد کرتے ہیں


کیا ہوگا کبھی آدم کو سجدہ کہنے سننے سے

فرشتے اب کہاں پروائے آدم زاد کرتے ہیں


ہمیں اے دوستو چپ چاپ مر جانا بھی آتا ہے

تڑپ کر اک ذرا دل جوئی صیاد کرتے ہیں


بہت سادہ سا ہے اے کیفؔ اپنے غم کا افسانہ

وہ ہم کو بھول بیٹھے ہیں جنہیں ہم یاد کرتے ہیں


سرسوتی سرن کیف


سیف الدین سیف

 یوم پیدائش 20 مارچ 1922


مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے

مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے


کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت

میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے


مری آرزو کی دنیا دل ناتواں کی حسرت

جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے


تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر

کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے


جو سنائی انجمن میں شب غم کی آپ بیتی

کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے


سیف الدین سیف



شیر سنگھ ناز دہلوی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1898


دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

جہاں سے اٹھ گئے اہل جہاں سے کچھ نہ کہا


چلی جو کشتئ عمر رواں تو چلنے دی

رکی تو کشتئ عمر رواں سے کچھ نہ کہا


خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی

بدل کے رہ گئے تیور زباں سے کچھ نہ کہا


بلا سے خاک ہوا جل کے آشیاں اپنا

تڑپ کے رہ گئے برق تپاں سے کچھ نہ کہا


گلہ کیا نہ کبھی ان سے بے وفائی کا

زباں تھی لاکھ دہن میں زباں سے کچھ نہ کہا


خوشی سے رنج سہے نازؔ عمر بھر ہم نے

خدا گواہ کبھی آسماں سے کچھ نہ کہا


شیر سنگھ ناز دہلوی


محشر حبیبی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1946


چاند تارے یہ رہگزر مانوس 

جس سفر سے ہیں ہم سفر مانوس 


اُن سے کتنا پرانا رشتہ ہے 

پتھروں سے ہمارے سر مانوس 


موت کا بھی مزا چکھیں گے ہم 

زندگی سے ہیں سانس بھر مانوس 


حادثوں سے ہے کون اب محفوظ 

آنسوؤں سے ہیں سارے گھر مانوس 


دوستی صرف اُن سے رکھتا ہوں 

جن کے شانوں سے ہے یہ سر مانوس 


میرا دُکھ کیا ہے آپ کیا جانیں 

آپ مجھ سے ہیں آنکھ بھر مانوس 


خامشی ٹھیک ہے مگر اے دوست 

شور محشر سے میرا گھر مانوس


محشر حبیبی


ارشد صدیقی

 یوم پیدائش 19 مارچ 1923


قلب و نظر کا سکوں اور کہاں دوستو

کوئے بتاں دوستو کوئے بتاں دوستو


میرا ہی دل ہے کہ میں پھرتا ہوں یوں خندہ زن

کم نہیں پردیس میں دل کا زیاں دوستو


جن میں خلوص وفا اور نہ شعور ستم

مجھ کو بٹھایا ہے یہ لا کے کہاں دوستو


چار گھڑی رات ہے آؤ کہ ہنس بول لیں

جانے سحر تک ہو پھر کون کہاں دوستو


ربط مراسم کے بعد ترک تعلق غلط

آگ بجھانے سے بھی ہوگا دھواں دوستو


لاکھ چھپو سایۂ گیسوئے شب رنگ میں

مل نہیں سکتی مگر غم سے اماں دوستو


شاعر ارشدؔ ہوں میں شاعر فطرت ہوں میں

مٹ نہیں سکتا مرا نام و نشاں دوستو


ارشد صدیقی


اعتبار ساجد

 تجھ سے لفظوں کانہیں، روح کارشتہ ہے مرا

تو مری سانس میں تحلیل ہے خوشبو کی طرح


اعتبار ساجد


یاسمین حمید

 یوم پیدائش 18 مارچ 1951


پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی

ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی


نظر آتا ہے جو ویسا نہیں ہوتا کوئی شخص

خود کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی


ایک دیوار اٹھائی تھی بڑی عجلت میں

وہی دیوار گرانے میں بہت دیر لگی


آگ ہی آگ تھی اور لوگ بہت چاروں طرف

اپنا تو دھیان ہی آنے میں بہت دیر لگی


جس طرح ہم کبھی ہونا ہی نہیں چاہتے تھے

خود کو پھر ویسا بنانے میں بہت دیر لگی


یہ ہوا تو کہ ہر اک شے کی کشش ماند پڑی

مگر اس موڑ پہ آنے میں بہت دیر لگی


یاسمین حمید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...