Urdu Deccan

Tuesday, May 4, 2021

ملک شجاع شاذ

 یوم پیدائش 01 مئی 1977


طے شدہ عشق سرِ دار نبھانا ہو گا

جو بھی لکھا ہے مرے یار نبھانا ہو گا


تم نے دیوانے کو ہنستے ہوئے دیکھا ہے کبھی

اب کہانی میں یہ کردار نبھانا ہو گا


وہ جو اک شخص پراسرار نظر آتا ہے

میری وحشت کا خریدار نظر آتا ہے


دلِ درویش صفت شور نہ کر چپ ہو جا

جب تو روتا ہے گنہ گار نظر آتا ہے


یا کسی اور کے ہیں نقش مرے چہرے پر

یا مجھے آئینے کے پار نظر آتا ہے


جب سے میں تیرا طلبگار ہوا ہوں اے دوست

ہر کوئی میرا طلب گار نظر آتا ہے


دکھ تو یہ ہے وہ مرے ساتھ نہیں رہ سکتا

جو مرے ساتھ لگاتار نظر آتا ہے


جو ترے شہر میں بنیادِ محبت تھا شاذ

آج وہ شخص بھی مسمار نظر آتا ہے


ملک شجاع شاذ


Friday, April 30, 2021

اشفاق احمد صائم

 سُکھ چین ، اضطراب سے پہلے کی بات ہے

یہ پیار کے عذاب سے پہلے کی بات ہے


دو سے نکالو ایک تو بچتا تھا ایک ہی

یہ عشق کے حساب سے پہلے کی بات ہے 


پڑھتے رہے وفاؤں کا مطلب خلوص ہم

یہ ہجر کے نصاب سے پہلے کی بات ہے


پہلے میں کہہ رہا تھا فقط پھول ہی تو ہے

تیرے دیے گلاب سے پہلے کی بات ہے


خوشبو طواف کرتی تھی پلکوں کا نصف شب

آنکھوں میں تیرے خواب سے پہلے کی بات ہے


پہلے تکلفات میں ہم ، تم رہا مگر

یہ آپ اور جناب سے پہلے کی بات ہے.


صدیوں خمار کا رہا الزام آنکھ پر

دنیا میں یہ شراب سے پہلے کی بات ہے


اشفاق احمد صائم


Thursday, April 29, 2021

ریاض ساغر

 میں ظلمتوں کو چیر کے لایا ہوں روشنی

اس شوق میں دھواں بھی نگلنا پڑا مجھے


  "ریاض ساغر"


نظر علی

 یوم پیدائش 30 اپریل 1962


جدھر دیکھو ادھر دہشت کھڑی ہے

 خدارا خير ہو مشکل بڑی ہے

 

خموشی اس قدر چھائی ہے ہر سو

نگر کی ہر گلی سونی پڑی ہے


پرندے ناتواں ہیں آشیاں میں

نگاه باز ہر جاں پر گڑی ہے 


 جہاں پر بھائی چارے کی ضیا تھی

 وہاں اب تیرگی پھیلی پڑی ہے

 

محبت آئے تو آئے کدھر سے

عداوت راستہ روکے کھڑی ہے


بنایا کارواں کا جن کو رہبر

شرارت ان کے تاجوں میں جڑی ہے


حکومت ہے جہاں میں نفرتوں کی

نظر یہ بھی سیاست کی کڑی ہے


نظرعلی


نیاز سواتی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1941


حسینوں سے تمہاری دوستی اچھی نہیں لگتی

بڑھاپے میں یہ عشق و عاشقی اچھی نہیں لگتی


مزا کچھ اور ہی تھا پی ڈبلیو ڈی کی سروس کا

ہمیں اب اور کوئی نوکری اچھی نہیں لگتی


الیکشن میں تو ہر ووٹر پر اپنی جاں چھڑکتے تھے

اب ان سے رہنماؤ بے رخی اچھی نہیں لگتی


کھلائے جو بھی حلوا تم اسی کا ساتھ دیتے ہو

ہمیں واعظ تمہاری پالیسی اچھی نہیں لگتی


رگڑنا پڑ رہا ہے سر ہر اک ووٹر کے پاؤں پر

اسی باعث تو ہم کو ممبری اچھی نہیں لگتی


نیاز سواتی


عظیم امروہوی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1954


انبیاء جتنے ہیں ان کا مرتبہ کچھ اور ہے

عظمتِ حضرت محمد مصطفےؐ کچھ اور ہے


نیل کے پانی میں جو رستہ بنا کچھ اور ہے 

آسمانوں سے جو گزرا راستہ کچھ اور ہے 


چاند ہے سورج ہے تارا ہے نہ ہے کوئی چراغ

آمنہ کے گھر میں یہ جلوہ نما کچھ اور ہے 


ہوگی جنت بھی تری معبود کافی پُر فضا

میری نظروں میں مدینے کی فضا کچھ اور ہے


تھا خدا مطلوب موسیٰؐ کو تو پہنچے طور پر

جس کو بلوایا وہ محبوب خدا کچھ اور ہے


کوئی گزرے گا فلک سے چاند بھی آج خوش

اور تاروں کے چمکنے کی ادا کچھ اور ہے


ہیں محمدؐ تو مدینہ علم کا حیدر ؓ ہیں در

ماسوا حیدر ؓ کہیں سے راستہ کچھ اور ہے


شاعری کا لطف ہر صنف سخن میں ہے عظیم

نعت کہنے کا حقیقت میں مزا کچھ اور ہے 


عظیم امروہوی


Wednesday, April 28, 2021

مبارک عظیم آبادی

 یوم پیدائش 29 اپریل 1829


درد دل یار رہا درد سے یاری نہ گئی

زندگی ہم سے تو بے لطف گزاری نہ گئی


دن کے نالے نہ گئے رات کی زاری نہ گئی

نہ گئی دل سے کبھی یاد تمہاری نہ گئی


ہم تو خوں گشتہ تمناؤں کے ماتم میں رہے

سینہ کوبی نہ گئی سینہ فگاری نہ گئی


انتظار آپ کا کب لطف سے خالی نکلا

رائیگاں رات کسی روز ہماری نہ گئی


بخشوایا مجھے تم نے تو خدا نے بخشا

نہ گئی روز جزا بات تمہاری نہ گئی


لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ لیکن

دن ہمارا نہ گیا رات ہماری نہ گئی


مبارک عظیم آبادی


اجے سحاب

 یوم پیدائش 29 اپریل 1969


جب بھی ملتے ہیں تو جینے کی دعا دیتے ہیں

جانے کس بات کی وہ ہم کو سزا دیتے ہیں


حادثے جان تو لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے

حادثے ہی ہمیں جینا بھی سکھا دیتے ہیں


رات آئی تو تڑپتے ہیں چراغوں کے لیے

صبح ہوتے ہی جنہیں لوگ بجھا دیتے ہیں


ہوش میں ہو کے بھی ساقی کا بھرم رکھنے کو

لڑکھڑانے کی ہم افواہ اڑا دیتے ہیں


کیوں نہ لوٹے وہ اداسی کا مسافر یارو

زخم سینہ کے اسے روز سدا دیتے ہیں


اجے سحاب


راز علیمی



اک تماشا بنا کے لاتے ہیں
خط ہمارا جلا کے لاتے ہیں

جب جوانی کی یاد آتی ہے
مَے کدے سے اُٹھا کے لاتے ہیں

روٹھ کر جا رہی ہے جانِ بہار
باغباں! چل منا کے لاتے ہیں

میں تقاضائِے دِید کرتا ہوں
عُذر وہ رنگِ ،، نَا ،، کے لاتے ہیں

دل تو بَیعُ و شِرا کی چیز نہیں
اس لیے ہم چُرا کے لاتے ہیں

جب گلابوں کی بات ہوتی ہے
اس کی صورت بنا کے لاتے ہیں

میں سویرے وفا کے لاتا ہوں
وہ اندھیرے دغا کے لاتے ہیں

اس کے بِن بزم سونی سونی ہے
چل ذرا ورغلا کے لاتے ہیں

قریۂِ دل سے راز اُمیدوں کی
ساری شمعیں بجھا کے لاتے ہیں

راز علیمیؔ

محمد وقار احمد نوری

 سرفروشی چاہنا ہے لازمی

وقت آیا جاگنا ہے لازمی


ہندو مسلم سکھ عسائی ایک ہوں

بند آنکھیں کھولنا ہے لازمی


قصر باطل کے ہلانے کے لیے

قلبِ مومن کی صدا ہے لازمی


صحبت صالح کرو تم اختیار

نیک بننا اب ذرا ہے لازمی


زندگی رنگیں بنانے کے لیے

الفتوں سے رابطہ ہے لازمی


ہے اگر رہنا محبت سے سدا

نفرتوں کا خاتمہ ہے لازمی


مختصر ہے زندگی اے دوستو

چار دن میں لوٹنا ہے لازمی


پوچھتے ہو کیا ہمیں تم ظالمو

دل میں خود کے جھانکنا ہے لازمی


آنچ ایماں پر اگر آئے کبھی

سر کٹانا کاٹنا ہے لازمی


قل ھواللہ احد کی اے وقار

رزمِ باطل میں نوا ہے لازمی


محمد وقار احمد نوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...