Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

ذوالفقار علی ذلفی

گلابوں سے بڑھ کے حسیں لگ رہی ہو

مجھے چاند کی تم جبیں لگ رہی ہو


خدا تم کو رکھے یوں ہی زندگی بھر

کہ اب جس طرح دِلنشیں لگ رہی ہو


تمہیں جس جگہ دل میں رکھا تھا میں نے

مجھے آج بھی تم وہیں لگ رہی ہو


بظاہر بہت دور اب مجھ سے ہو تم

مگر دھڑکنوں کے قریں لگ رہی ہو


تمہیں دیکھتا ہی رہوں دل یہ چاہے

کوئی مجھ کو ہیرا نگیں لگ رہی ہو


میں ذُلفی ہوں ویسے کا ویسا ہی اب تک

مگر تم مجھے وہ نہیں لگ رہی ہو


ذوالفقار علی ذُلفی


ڈاکٹر وحید الحق

 میں کس کے ساتھ چلوں کس کو ہم سفر سمجھوں

یقین کس پہ کروں کس کو بے ضرر سمجھوں


شفا ملی نہ ہوا کچھ علاجِ دردِ دل

کسے طبیب کہوں، کس کو چارہ گر سمجھوں 


یہ آس پاس مرے لوگ سب فرشتے ہیں

کوئی تو رند ملے میں جسے بشر سمجھوں


مرا جو شہر تھا وہ اب کہاں رہا اپنا

دیارِ غیر میں کس گھر کو اپنا گھر سمجھوں


ترے سوا نہ کہیں اور کچھ نظر آئے

چلوں جدھر بھی اسے تیری رہ گزر سمجھوں

 

پتہ کوئی نہ خبر زندگی کہیں لے چل

یہاں سے دور جہاں خود کو بے خبر سمجھوں 


رفو گری پہ اسے ناز ہے بہت لیکن 

رفو کرے وہ مرا دل تو میں ہنر سمجھوں


بھرم کوئی نہ رہے گا کوئی گماں باقی

ذرا قریب سے جاکر اُسے اگر سمجھوں 


سمجھ نہ پائے گی دنیا مری فقیری کو

سُرورِ ترکِ جہاں دولتِ نظر سمجھوں 


 ڈاکٹر وحیدالحق


ایس ڈی عابد

 ادبی دنیا کی شان اردو ہے

کتنی شیریں زبان اردو ہے


جو بھی آیا مرے تخیل میں 

استعارہ نشان اردو ہے 


شعر ہوتے ہیں خوشنما اس میں

شاعری کی میان اردو ہے 


کیسی پُرکیف ہے زباں اردو

غزلوں نظموں کی جان اردو ہے


اس میں نفرت سما نہیں سکتی

چاہتوں کی امان اردو ہے 


پیار دیتی ہے پیار لیتی ہے 

کس قدر مہربان اردو ہے


سب زبانیں تو سن رسیدہ ہیں 

ان میں سب سے جوان اردو ہے 


ہیں زبانیں بہت زمانے میں 

میرا سارا بیان اردو ہے 


آج عابدؔ ادب کی دنیا میں 

ہو گئی کامران اردو ہے 


ایس،ڈی،عابدؔ


ریاض ساغر

 مجھ کو اللہ نے ایمان کی دولت دے دی

اور کیا ہوگا مقدّر کا سکندر ہونا

ریاض ساغر


کاظم علی

 لاکھ چاہا میں نے مگر، نہ ملا

مجھ کو اک شخص عمر بھر، نہ ملا


عمر اک سجدے میں گزرتی مری

سر جھکانے کو، کوئی در، نہ ملا


مجھ کو بھی کوئی اور بھایا نہیں

اس کو بھی کوئی خوب تر، نہ ملا


یوں تو حاصل تھی کائنات مجھے

جس کو ملنا تھا، خاص کر، نہ ملا


جو ملا، عمر بھر وہ ساتھ رہا

غم مجھے کوئی مختصر، نہ ملا


کاظم علی


جوہر علی ذیشان

 یوم پیدائش 23 جون


دل میں اٹھتے ہوئے جذبات کا چرچا ہوگا

میری الجھی سی حکایات کا چرچا ہوگا 


ایک دن دیکھنا ہرشخص کی باتوں میں فقط 

حسنِ جاناں کے کمالات کا چرچا ہوگا 


آج تو بات مری لگتی ہے دیوانوں سی 

ایک دن میری کہی بات کا چرچا ہوگا 


آپ کے آنے پہ گم ہوگئے تھے ہوش مرے 

کب خبر تھی کہ ملاقات کا چرچا ہوگا


بات آنکھوں سے بیاں ہوگی مگرمحفل میں 

سارے خاموش سوالات کا چرچا ہوگا


ہم نے ذیشن زمانے کو کہاں سمجھا ہے 

روزو شب گردشِ حالات کا چرچا ہوگا 


  جوہر علی ذیشان


قمر آسی

 یوم پیدائش 23 جون 1987


کہتی ہے تیری اتنی کمائی نہیں اگر

کنگن دلا سنہری ، طلائی نہیں اگر


کچھ تو قصور اس میں ہے رخسار یار کا

کیوں گر پڑا ہے دل وہاں کھائی نہیں اگر


سمجھے ہیں میرے یار گنہگار کیوں مجھے

کرتا ہوں پیش اپنی صفائی نہیں اگر


کیوں دل دھڑک رہا ہے مرا تیری آنکھ میں

تسکین اس کی تو نے چرائی نہیں اگر


چہرے پہ اپنے کوفت، جبیں پر شکن دکھا

تجھ کو پسند شوخ نوائی نہیں اگر


تسلیم کر کہ ہجر پہ راضی نہیں خدا

تیری ٹرین وقت پہ آئی نہیں اگر


کھلتی حلاوت لب جانان کس طرح

ہوتی مری گلی میں لڑائی نہیں اگر


قمر آسی


عنبرین حسیب عنبر

 یوم پیدائش 23 جون 1981


زندگی بھر ایک ہی کار ہنر کرتے رہے

اک گھروندا ریت کا تھا جس کو گھر کرتے رہے


ہم کو بھی معلوم تھا انجام کیا ہوگا مگر

شہر کوفہ کی طرف ہم بھی سفر کرتے رہے


اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں

انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے


یوں تو ہم بھی کون سا زندہ رہے اس شہر میں

زندہ ہونے کی اداکاری مگر کرتے رہے


آنکھ رہ تکتی رہی دل اس کو سمجھاتا رہا

اپنا اپنا کام دونوں عمر بھر کرتے رہے


اک نہیں کا خوف تھا سو ہم نے پوچھا ہی نہیں

یاد کیا ہم کو بھی وہ دیوار و در کرتے رہے


عنبرین حسیب عنبر


عرفان احمد میر بالغ

 یوم پیدائش 22 جون 1977


زندگی تیری طلب تھی تو زمانے دیکھے

مرتے مرتے کئی جینے کے بہانے دیکھے


حوصلہ تھا یا کرم ہو کہ وفاداری ہو

ہم نے الفت میں کئی خواب سہانے دیکھے


آنکھ سے جاری رہا اشکوں کا بہنا کیونکر

غم نے ٹھکرایا تو پھر زخم پرانے دیکھے


زخم پر زخم لگانے کی نہ عادت تھی اسے

میرے قاتل نے نئے روز نشانے دیکھے


آپ کا جرم نہیں ہم ہی خطا کر بیٹھے

دل نے بس چاہا تمہیں غم نے ٹھکانے دیکھے


ہم پہ الفت کی ہوئی ایسی عطائیں بالغؔ

جس طرف ڈھونڈ لئے غم کے خزانے دیکھے


عرفان احمد میر بالغ


نعیم ضرار

 یوم پیدائش 22 جون 1965


منزل ہے تو اک رستۂ دشوار میں گم ہے 

رستہ ہے تو پیچ و خم دل دار میں گم ہے 


جس دین سے ملتا تھا خدا خانۂ دل میں 

ملا کے سجائے ہوئے بازار میں گم ہے 


اجزائے سفر ورطۂ حیرت میں پڑے ہیں 

رفتار ابھی صاحب رفتار میں گم ہے 


سائل ہیں کہ امڈے ہی چلے آتے ہیں پیہم 

وہ شوخ مگر اپنے ہی دیدار میں گم ہے 


وہ حسن یگانہ ہے کوئی شہر طلسمات 

ہر شخص جہاں رستوں کے اسرار میں گم ہے 


اشخاص کے جنگل میں کھڑا سوچ رہا ہوں 

اک نخل تمنا انہی اشجار میں گم ہے 


یا حسن ہے ناواقف پندار محبت 

یا عشق ہی آسانیٔ اطوار میں گم ہے 


اے کاش سمجھتا کوئی پس منظر پیغام 

دنیا ہے کہ پیرایۂ اظہار میں گم ہے


نعیم ضرار 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...