Urdu Deccan

Tuesday, June 29, 2021

م لیئق انصاری

 یوم پیدائش 25 جون


تیرے جذبات مرے دل کا وسیلہ ٹھہرے

اشک پلکوں پہ تری جیسے ستارہ ٹھہرے


زندگی تجھ سے نہیں کوئی بھی شکوہ لیکن

کیسے ماتھے پہ ترے ہجر کا مارا ٹھہرے


شدت کرب کی شورش ہے سمندر میں مگر

زخم یادوں کے تری آج کنارہ ٹھہرے


تیرا پیکر جو تراشا ہے غزل میں ، میں نے

کاش وہ دل کا ترے کوئی شمارہ ٹھہرے


منکشف ہوتے نہیں راز لبوں پر تیرے

تیرے اشعار مرے دل کا سہارا ٹھہرے


چاندنی رات جو تصویر بناتی ہے تری

میری آنکھوں میں وہ رنگین نظارہ ٹھہرے


آگ میں دل میں محبت کی لگا دوں گا ترے

تیری آنکھوں میں جو الفت کا شرارہ ٹھہرے


پانیوں پر جو بنائے تھے گھروندے میں نے

وہ بھی صحرا میں نہ طوفاں کا اشارہ ٹھہرے


وہ میرے دل میں مکیں آج ہوئے ہیں ایسے

جیسے دل میں کوئی احساسِ شکستہ ٹھہرے


آ بسا ہے وہ لئیق آج لبوں پر میرے

جیسے بن کر وہ غزل پھول کا لہجہ ٹھہرے


 م


۔لئیق انصاری

Thursday, June 24, 2021

نعیم ضرار

 وقت پر عشق زلیخا کا اثر لگتا ہے 

آخر عمر بھی آغاز سفر لگتا ہے 


یہ سمندر ہے مگر سوختہ جاں شاعر کو 

کسی مجبور کا اک دیدۂ تر لگتا ہے 


صبح تازہ ہے مقدر دل مایوس ٹھہر 

شجر امید پہ انعام ثمر لگتا ہے 


میں زباں بندی کا یہ عہد نہیں توڑوں گا 

ہاں مگر اس دل گستاخ سے ڈر لگتا ہے 


ہمیں ادراک محبت تو نہیں ہے لیکن 

اتنا معلوم ہے اس کھیل میں سر لگتا ہے


 نعیم ضرار


شاعر علی راحل

 وہ مَلا رات خواب میں جیسے

 تیرتا عکس آب میں جیسے

 

دیکھ کر اُس کو دل ہُوا بےچین

وه بھی تها اضطراب میں جیسے


یاد نے چھیڑے تار یوں دل کے

دُھن بجی ہَو رُباب میں جیسے


اِسطرح گھل گیا ہے وہ مجھ میں

گھلتی شکّر ہے آب میں جیسے


کھوج میں اُس کی دَربدر بهٹکے 

پیاس کوئی سَراب میں جیسے 


اِسطرح اُس کے پیار میں ڈوبے 

سوہنی ڈوبی چناب میں جیسے


ذہن و دل پر وہ نقش ہے رَاحِلؔ

حَرف کوئی کتاب میں جیسے


شاعر علی رَاحِلؔ


اظہرکورٹلوی

 ہم رہیں گے جنّت میں 

خوب شان و شوکت میں 


 وہ کہاں جو دولت میں 

 ہے مزہ عبادت میں 

 

مقتدی نبی سارے 

آپﷺ کی اِمامت میں 


مال و زر لٹا کچھ تو 

دین کی محبّت میں 


اپنے رشتہ داروں کی 

لے خبر تو فرصت میں 


بھولئے نہیں رب کو 

غم میں اور مسرّت میں 


ذکرِ رب ہی اے لوگو!

ہے سکون وحشت میں 


امن بھی تھا اور انصاف 

" آپ تھے حکومت میں "


علم ہی میاں اظہرؔ 

نور ہے جو ظلمت میں


 میں نے یہ غزل اظہرؔ 

 ہے رقم کی عجلت میں 

 

 اظہؔرکورٹلوی


ندیم اعجاز

 دل یوں سحر کے واسطے مت بے قرار کر

ظلمت کی شب گزرنے کو ہے اعتبار کر


سودا ہے سر پہ کیسے میں روکوں زبان کو

جو جی میں آئے وہ ہی روش اختیار کر


قاتل کو میری لاش پہ جو چارہ گر کہے

اُس کو بھی میرے قتل میں شامل شمار کر


محشر تو کر چکے ہیں بپا اہلِ اقتدار

تو بیٹھ کے فلک پہ یونہی انتظار کر


دھرتی کی الفتوں میں کروں اور کیا بتا

دے تو رہا ہوں جان میں صدقے میں وار کر


مت خوف کھا ندیم تُو جابر کے جبر سے

کر جبر پر مزاحمت اور بار بار کر


ندیم اعجاز


ذوالفقار علی ذلفی

گلابوں سے بڑھ کے حسیں لگ رہی ہو

مجھے چاند کی تم جبیں لگ رہی ہو


خدا تم کو رکھے یوں ہی زندگی بھر

کہ اب جس طرح دِلنشیں لگ رہی ہو


تمہیں جس جگہ دل میں رکھا تھا میں نے

مجھے آج بھی تم وہیں لگ رہی ہو


بظاہر بہت دور اب مجھ سے ہو تم

مگر دھڑکنوں کے قریں لگ رہی ہو


تمہیں دیکھتا ہی رہوں دل یہ چاہے

کوئی مجھ کو ہیرا نگیں لگ رہی ہو


میں ذُلفی ہوں ویسے کا ویسا ہی اب تک

مگر تم مجھے وہ نہیں لگ رہی ہو


ذوالفقار علی ذُلفی


ڈاکٹر وحید الحق

 میں کس کے ساتھ چلوں کس کو ہم سفر سمجھوں

یقین کس پہ کروں کس کو بے ضرر سمجھوں


شفا ملی نہ ہوا کچھ علاجِ دردِ دل

کسے طبیب کہوں، کس کو چارہ گر سمجھوں 


یہ آس پاس مرے لوگ سب فرشتے ہیں

کوئی تو رند ملے میں جسے بشر سمجھوں


مرا جو شہر تھا وہ اب کہاں رہا اپنا

دیارِ غیر میں کس گھر کو اپنا گھر سمجھوں


ترے سوا نہ کہیں اور کچھ نظر آئے

چلوں جدھر بھی اسے تیری رہ گزر سمجھوں

 

پتہ کوئی نہ خبر زندگی کہیں لے چل

یہاں سے دور جہاں خود کو بے خبر سمجھوں 


رفو گری پہ اسے ناز ہے بہت لیکن 

رفو کرے وہ مرا دل تو میں ہنر سمجھوں


بھرم کوئی نہ رہے گا کوئی گماں باقی

ذرا قریب سے جاکر اُسے اگر سمجھوں 


سمجھ نہ پائے گی دنیا مری فقیری کو

سُرورِ ترکِ جہاں دولتِ نظر سمجھوں 


 ڈاکٹر وحیدالحق


ایس ڈی عابد

 ادبی دنیا کی شان اردو ہے

کتنی شیریں زبان اردو ہے


جو بھی آیا مرے تخیل میں 

استعارہ نشان اردو ہے 


شعر ہوتے ہیں خوشنما اس میں

شاعری کی میان اردو ہے 


کیسی پُرکیف ہے زباں اردو

غزلوں نظموں کی جان اردو ہے


اس میں نفرت سما نہیں سکتی

چاہتوں کی امان اردو ہے 


پیار دیتی ہے پیار لیتی ہے 

کس قدر مہربان اردو ہے


سب زبانیں تو سن رسیدہ ہیں 

ان میں سب سے جوان اردو ہے 


ہیں زبانیں بہت زمانے میں 

میرا سارا بیان اردو ہے 


آج عابدؔ ادب کی دنیا میں 

ہو گئی کامران اردو ہے 


ایس،ڈی،عابدؔ


ریاض ساغر

 مجھ کو اللہ نے ایمان کی دولت دے دی

اور کیا ہوگا مقدّر کا سکندر ہونا

ریاض ساغر


کاظم علی

 لاکھ چاہا میں نے مگر، نہ ملا

مجھ کو اک شخص عمر بھر، نہ ملا


عمر اک سجدے میں گزرتی مری

سر جھکانے کو، کوئی در، نہ ملا


مجھ کو بھی کوئی اور بھایا نہیں

اس کو بھی کوئی خوب تر، نہ ملا


یوں تو حاصل تھی کائنات مجھے

جس کو ملنا تھا، خاص کر، نہ ملا


جو ملا، عمر بھر وہ ساتھ رہا

غم مجھے کوئی مختصر، نہ ملا


کاظم علی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...