Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

ہما علی

 بہار رنگ مرے چار سو ابھی تک ہے 

دوام حسن ہے وہ ماہ رو ابھی تک ہے 


سنا تھا فرقتیں حلیہ بگاڑ دیتی ہیں ؟

کہاں کا ہجر کہ وہ خوبرو ابھی تک ہے 


ہو رنج کیا اسے محرومیءِ تمنا کا 

انا کے باب میں وہ سر خرو ابھی تک ہے


زمانے والے اسے مجھ سے دور لے جائیں 

وگرنہ خواب میں تو گفتگو ابھی تک ہے


وہ صفحہ ڈائری کا اب بھی ہے مہکتا سا

کہ خشک پھول میں بھی رنگ و بو ابھی تک ہے


یہ کالی شال میں ہر پل جو اوڑھے رکھتی ہوں 

یہ پہلے عشق کی تھی آبرو ابھی تک ہے


ہما علی


شہروز خاور

 یوم پیدائش 14 اکتوبر


خاک ہونے کا نہیں ، موجوں کا مارا ہوا میں

خشکی و تر کی کشاکش میں کنارا ہوا میں


جنگ آمادہ ہُوں دنیا سے بس اک تیرے لیے

خود سے ہاری ہوئی پرچھائیں سے ہارا ہوا میں


لوگ بڑھ بڑھ کے بغل گیر ہوا چاہتے ہیں

چند روزہ ترے کوچے میں گذارا ہوا میں


تو نے دیکھا ہے سدا دیکھنے والوں کی طرح

کب تری چشم تمنا کو گوارا ہوا میں


ہجر کاٹیں گی کہاں تک مری حوریں شہروز

عرش کا فرش پہ مدت سے اتارا ہوا میں


شہروز خاور


قاسم محمد قاسم کلیانوی

 خاک رکھا ہے ان نظاروں میں 

چاند گھل مل گیا ہے تاروں میں 


سرِ محفل نظر ملی ان سے 

بات ہوتی رہی اشاروں میں


ایک مدت ہوئی ملے تم سے

اب کے آجاؤ نا بہاروں میں


وقت آئے تو جان بھی دیں گے

نام لکھ لو ہمارا یاروں میں


تیری یادوں میں سو نہ پائے ہم 

 خواب بیٹھے رہے قطاروں میں


کون پوچھے گا حال دل ہم سے 

کون اپنا پرایا یاروں میں


نام آتا ہے اپنا اے قاسم 

سرِ فہرست غم گساروں میں


 قاسم محمد قاسم کلیانوی


جام اکبر نواز کھور

 آنکھوں میں کچھ دیپ جلانے آ جاؤ

یا پھر اپنی یاد بھلانے آ جاؤ

ہم نے درد کا صحرا آنکھ میں رکھا ہے

صحرا میں کوئی پھول کھلانے آ جاؤ


جام اکبر نواز کھور


زبیر قلزم

 خود سے ہی مزاق کر گیا میں

کل رات کو اپنے گھر گیا میں


کس زندگی کا حساب دوں گا؟

جس زندگی سے مکر گیا میں


ہر بزم کی جان تھا مگر آج

سائے سے ہی اپنے ڈر گیا میں


خوش فہمی یہ کس کو ہو رہی ہے

کس نے یہ کہا سدھر گیا میں


مقتل بھی گیا صنم کدے بھی

مایوسی ہوئی جدھر گیا میں


کوئی بھی نہ تعزیت کو آیا

میں کہتا رہا کہ مر گیا میں


 زبیر قلزم


شاہین مفتی

 یوم پیدائش 14 اکتوبر 


اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے 

تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے 


مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں 

شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے 


گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے 

مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے 


روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا 

کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے 


اسے تو گوشۂ مخصوص میں سنبھال کے رکھ 

کرن ہے کوچۂ شمس و قمر سے آئی ہے


شاہین مفتی


حسرت موہانی

 یوم پیدائش 14 اکتوبر 1875


چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے


باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق

تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے


بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا

اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے


تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا

اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے


کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً

اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے


جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرا

اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے


تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظ

حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے


جب سوا میرے تمہارا کوئی دیوانہ نہ تھا

سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے


غیر کی نظروں سے بچ کر سب کی مرضی کے خلاف

وہ ترا چوری چھپے راتوں کو آنا یاد ہے


آ گیا گر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق

وہ ترا رو رو کے مجھ کو بھی رلانا یاد ہے


دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے


آج تک نظروں میں ہے وہ صحبت راز و نیاز

اپنا جانا یاد ہے تیرا بلانا یاد ہے


میٹھی میٹھی چھیڑ کر باتیں نرالی پیار کی

ذکر دشمن کا وہ باتوں میں اڑانا یاد ہے


دیکھنا مجھ کو جو برگشتہ تو سو سو ناز سے

جب منا لینا تو پھر خود روٹھ جانا یاد ہے


چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ

مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے


شوق میں مہندی کے وہ بے دست و پا ہونا ترا

اور مرا وہ چھیڑنا وہ گدگدانا یاد ہے


باوجود ادعائے اتقا حسرتؔ مجھے

آج تک عہد ہوس کا وہ فسانا یاد ہے


حسرتؔ موہانی


شگفتہ یاسمین

 یوم پیدائش 11 اکتوبر 


تیری یاد کا ہر پل، وجہ شادمانی ہے

صبح بھی سہانی تھی شام بھی سہانی ہے


دوسروں سے برہم ہوں، خود سے بد گمانی ہے

کیا یہی محبت کا عالم جوانی ہے


بھیگ تو گیا دامن میرے اشک پیہم سے

خود ہی فیصلہ کر لو آگ ہے کہ پانی ہے


زرد زرد پتوں کو شاخ ہی پہ رہنے دو

لوٹتی بہاروں کی آخری نشانی ہے


عمر بھر کے خوابوں نے ہونٹ سی لئے اپنے

اب تو صرف آنکھوں کو شوق ترجمانی ہے


شکوہ ء جفا آخر اپنے لب پہ کیوں آئے

اُس نے یاد تو رکھا یہ بھی مہربانی ہے


شگفتہ یاسمین


شمعہء بھلیسی

 یوم پیدائش 12 اکتوبر


دردِ ماضی ابھر کے آئے ہیں

جب کبھی لب یہ مسکرائے ہیں


زندگی کی اداس راتوں میں

ساتھ یادوں کے تیری سائے ہیں


کرچیاں خواب کی ہیں یوں بکھری

ہم نے آنکھوں میں جو سجائے ہیں


حالِ دل ان سے اب کہیں کیسے

اپنے ہوکر بھی جو پرائے ہیں


شمعہء بھلیسی


ریاض مجید

 یوم پیدائش 13 اکتوبر 1942


بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی

کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی


میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا

میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی


خدا کرے تجھے دوری ہی راس آ جائے

تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی


ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے

میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لٹا کر بھی


میں اس کو سطح سے محسوس کر کے بھی خوش ہوں

وہ مطمئن ہی نہیں میری تہہ کو پا کر بھی


ابھی تک اس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا

وہ چپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی


اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو

رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی


وہ لوگ اور ہی تھے جن کا عجز پھل لایا

ہمیں تو کچھ نہ ملا اپنے کو مٹا کر بھی


کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں

اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی


غزل کہے پہ بھی سوچوں کا بوجھ کم نہ ہوا

سکوں نہ مل سکا احوال دل سنا کر بھی


رکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی ریاضؔ

ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی


ریاض مجید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...