یوم پیدائش 24 اکتوبر 1933
اربابِ سیاست کی ہر اک بات ہی مومنؔ
بالخیر بہت کم ہے شر انگیز بہت ہے
مومنؔ غازی پوری
یوم پیدائش 24 اکتوبر 1933
اربابِ سیاست کی ہر اک بات ہی مومنؔ
بالخیر بہت کم ہے شر انگیز بہت ہے
مومنؔ غازی پوری
یوم پیدائش 24 اکتوبر 1947
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
سلیم کوثر
یوم پیدائش 24 اکتوبر 1905
اس دامن رحمت کا صدقہ تقدیرِ معزؔ بن کر چمکا
انوارِ محمدؐ سے بڑھ کر مرقد میں اجالا کیا ہوگا
مولانا سید شاہ معز الدین قادری
یوم پیدائش 24 اکتوبر 1950
کہیں بھی انقلاب آئے یہی تصویر بولے گی
کبھی تحریر بولے گی کبھی شمشیر بولے گی
فقط خوابوں میں کھونے سے کہیں تقدیر بولے گی
عمل شامل اگر ہو تو ہر اک تدبیر بولے گی
وہاں پر مصحفِ احساس کی تحریر بولے گی
حدیثِ زندگی کی جِس جگہ تفسیر بولے گی
ہر اک منبر سے جب اسلام کی تاثیر بولے گی
مُقّرر خود نہ بولے گا مگر تقریر بولے گی
جہاں سے امن کے موسم میں ہوگی خون کی بارش
سمجھ لینا وہیں سے جنگِ عالمگیر بولے گی
خبر کیا تھی کہ جس کی پیاس پر کوثر نچھاور ہے
اُسی معصوم کی گردن پہ نوكِ تیر بولے گی
کِسے تیرا خیال آئے گا تنہائی کے عالم میں
اگر آئینہ خانے میں کوئی تصویر بولے گی
دہل اٹھّیں گی دیواریں تمہارے قید خانوں کی
چٹخ کر جب ہمارے پاؤں کی زنجیر بولے گی
کوئی تو خضر بن کر راستے میں آ ہی جائے گا
سِکندر کی زباں جب عالمی تسخیر بولے گی
جِسے ہم جاگتی آنکھوں میں رکھ کر بھول آئے ہیں
کہاں تک اُس ادھورے خواب کی تعبیر بولے گی
محاذِ زندگی پر فتح یابی ہی مُقدر ہے
زبانِ صدق سے تحریک جب تکبیر بولے گی
مرے احباب بھی مجھ کو بھلا دیں گے مجاز اُس دن
کھنڈر کا روپ لے کر جب مری جاگیر بولے گی
نیاز احمد مجاز انصاری
یوم پیدائش 24 اکتوبر 1775
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل دغدار میں
کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں
یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
بہادر شاہ ظفر
(ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
یہ شعر پیمانہ غزل پیج نمبر 123 پر موجود ہے)
یوم پیدائش 24 اکتوبر 1901
یہ دل آویزیٔ حیات نہ ہو
اگر آہنگ حادثات نہ ہو
تیری ناراضگی قبول مگر
یہ بھی کیا بھول کر بھی بات نہ ہو
زیست میں وہ گھڑی نہ آئے کہ جب
ہات میں میرے تیرا ہات نہ ہو
ہنسنے والے رلا نہ اوروں کو
صبح تیری کسی کی رات نہ ہو
عشق بھی کام کی ہے چیز اگر
یہی بس دل کی کائنات نہ ہو
کون اس کی جفا کی لائے تاب
گاہے گاہے جو التفات نہ ہو
رند کچھ کر رہے ہیں سرگوشی
ذکر ملاؔ سے خوش صفات نہ ہو
آنند نرائن ملا
یوم پیدائش 23 اکتوبر 1909
زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے
نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے
یہ مانا شیشۂ دل رونق بازار الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے
نگاہیں تاڑ لیتی ہیں محبت کی اداؤں کو
چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے
یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامقؔ
مزاج عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے
وامق جونپوری
یوم پیدائش 22 اکتوبر 1914
غم سے گھبرا کے کبھی نالہ و فریاد نہ کر
عزت نفس کسی حال میں برباد نہ کر
دل یہ کہتا ہے کہ دے اینٹ کا پتھر سے جواب
جو تجھے بھولے اسے تو بھی کبھی یاد نہ کر
توڑ دے بند قفس کچھ بھی اگر ہمت ہے
اک رہائی کے لئے منت صیاد نہ کر
اپنے حالات کو بہتر جو بنانا ہے تجھے
عہد رفتہ کو کبھی بھول کے بھی یاد نہ کر
حال کو دیکھ سمجھ وقت کی قیمت اے دوست
فکر فردا میں کبھی وقت کو برباد نہ کر
زندگی بنتی ہے کردار سے کردار بنا
مختصر زیست کے لمحات کو برباد نہ کر
کبھی بدلا ہے نہ بدلے گا محبت کا مزاج
اہل دل ہے تو کسی دل کو بھی ناشاد نہ کر
مدعی علم کا ہے جہل مرکب لا ریب
قول فیصل ہے فراموش یہ ارشاد نہ کر
عبدالرحمان خان وصفی بہرائچی
یوم پیدائش 22 اکتوبر
براہِ دستِ طلب، انکسارِ ذات کے پھول
قبول کیجئے لایا ہوں چار نعت کے پھول
تُو میری قبر پہ خاکِ مدینہ رکھنا دوست
مری طلب میں نہیں تیری کائنات کے پھول
درود ﷺ پڑھتے ہوئے کوئی بھی ارادہ کروں
مہک اٹھیں گے مرے پاس ممکنات کے پھول
حضور ﷺ آپ کے دستِ دعا کی نسبت سے
بروزِ حشر مہک جائیں گے نجات کے پھول
مجھے جو ناقہ ء نبوی ﷺ کا ساتھ مل جاتا
بڑی لگن سے سجاتا اُسے میں کات کے پھول
سُنو یہ میرے نبی ﷺ کی دعاؤں کا ہے ثمر
فرشتے بانٹنے آئے شبِ برات کے پھول
حضور ﷺ آپ ﷺ کا ادنیٰ غلام ہے انجم
جو آپ ﷺ چاہیں تو کھلتے رہیں حیات کے پھول
آصف انجم
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...