یوم پیدائش 11 نومبر
محبت کا کرشمہ یہ ہوا ہے
کہ اس کا نام لب پر آگیا ہے
خدا جانے کہاں منزل ہے میری
نگاہوں کا یہ رستہ بھا گیا ہے
بھلا سکتی نہیں اس کو وفا میں
وہ میرے ذہن و دل پر چھا گیا ہے
وفا صمدانی
یوم پیدائش 11 نومبر
محبت کا کرشمہ یہ ہوا ہے
کہ اس کا نام لب پر آگیا ہے
خدا جانے کہاں منزل ہے میری
نگاہوں کا یہ رستہ بھا گیا ہے
بھلا سکتی نہیں اس کو وفا میں
وہ میرے ذہن و دل پر چھا گیا ہے
وفا صمدانی
یوم پیدائش 11 نومبر
آدم کے ساتھ دیس نکالا دیا مجھے
قدرت نے دیکھنے کو تماشا دیا مجھے
اتنا ہنسا کہ آنکھ بھی پانی سے بھر گئی
اک شخص نے مذاق میں الجھا دیا مجھے
خود کو قصوروار سمجھنے لگا تھا میں
اس نے کچھ اس حساب سے دھوکا دیا مجھے
حاکم نے شاہ زادی سے الفت کے جرم میں
اک خواب کی فصیل میں چنوا دیا مجھے
آنکھیں کھلیں ورید تغافل کی بھیڑ میں
گل نے جہانِ خواب سے چونکا دیا مجھے
ورید اللہ ورید
یوم پیدائش 11 نومبر 1969
آئنہ ایسا کبھی دیکھا نہ تھا
میرے چہرے میں مرا چہرہ نہ تھا
نیند لپٹی رہ گئی اس خواب سے
در حقیقت خواب جو اپنا نہ تھا
اک پڑوسی دوسرے سے نابلد
بے مروت شہر تو اتنا نہ تھا
روشنی کا یہ بھی ہے اک تجربہ
میں جہاں بھٹکا تھا اندھیارا نہ تھا
ہاتھ جو کھولا تو بچہ رو پڑا
بند مٹھی میں کوئی سکہ نہ تھا
مشتاق صدف
یوم پیدائش 11 نومبر 1934
کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا
لفظ تو لفظ ہیں کاغذ سے بھی خوشبو پھوٹے
صفحۂ وقت پہ وہ پھول کھلائے رکھنا
چاند کیا چیز ہے سورج بھی ابھر آئے گا
ظلمت شب میں لہو دل کا جلائے رکھنا
حرمت حرف پہ الزام نہ آنے پائے
سخن حق کو سر دار سجائے رکھنا
فرش تو فرش فلک پر بھی سنائی دے گا
میری آواز میں آواز ملائے رکھنا
کبھی وہ یاد بھی آئے تو ملامت کرنا
کبھی اس شوخ کی تصویر بنائے رکھنا
بخشؔ سیکھا ہے شہیدان وفا سے ہم نے
ہاتھ کٹ جائیں علم منہ سے اٹھائے رکھنا
بخش لائلپوری
یوم پیدائش 11 نومبر 1917
یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے
دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے
آؤ تعمیر کریں اپنی وفا کا معبد
ہم نہ مسجد کے لیے ہیں نہ شوالوں کے لیے
سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے
رات کا کرب ہے گلبانگ سحر کا خالق
پیار کا گیت ہے یہ درد اجالوں کے لیے
شب فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے
فارغ بخاری
یوم پیدائش 11 نومبر 1888
ہے عکس روئے یار دل داغ دار میں
کچھ تیرگی نہیں ہے ہمارے مزار میں
کچھ ایسے محو ہو گئے اقرار یار میں
لطف انتظار کا نہ ملا انتظار میں
دوچند اس سے حسن پہ ان کو غرور ہے
جتنا نیاز و عجز ہے مجھ خاکسار میں
وہ پیاری پیاری شکل وہ انداز دل فریب
رہتا نہیں ہے دیکھ کے دل اختیار میں
ایسی بھری ہیں یار کے دل میں کدورتیں
نامہ لکھا ہے مجھ کو تو خط غبار میں
ہم کچھ وصف کاکل پیچاں نہ لکھ سکے
مضموں الجھ رہے ہیں قلم مشکبار میں
کچھ بھی نہ اس کی وعدہ خلافی کا رنج ہو
آ جائے موت ہی جو شب انتظار میں
اے موت تو ہی آ نہ آئیں گے وہ کبھی
آنکھیں ہیں اک عرصے سے وا انتظار میں
سمجھو کہ کس کو کہتے ہیں تکلیف انتظار
بیٹھو کبھی جو دیدۂ خوننابہ یار میں
سودائے زلف و رخ میں غضب کا ہے انتظار
اب آ گئے ہیں گردش لیل و نہار میں
بیٹھے ہیں آج آپ تو پہلو میں غیر کے
ہم ہوں گے کل عروس اجل کے کنار میں
مٹ کر ہوں خاک سرمہ کی مانند بھی اگر
پھر بھی کبھی سمائیں نہ ہم چشم یار میں
کہنے لگے کہ آپ کی نیت تو ٹھیک ہے
بیتاب مجھ کو دیکھ کے بوس و کنار میں
شکوہ کریں تو کیا کریں جور و جفا کا ہم
سب عمر کٹ گئی ستم روزگار میں
مرنے کے بعد بھی ہے وہی کشمکش خدا
میں قبر میں ہوں دل مرا ہے کوئے یار میں
تقدیر کے لکھے کو مٹانا محال ہے
کیا دخل ہے مشیت پروردگار میں
بجلی سی کوند جاتی ہے گھونگھٹ کی آڑ میں
کیا شوخیاں ہیں اس نگہ شرمسار میں
دعوائے عاشقی پہ یہ کہنے لگا وہ بت
اللہ کی شان !آپ بھی ہیں اس شمار میں
پامال کیجئے گا سمجھ کر خدا اسے
ہے آپ ہی کا گھر دل بے اختیار میں
سودا نیا ، جنوں ہے نیا ، ولولے نئے
اب اور ہی بہار ہے اب کے بہار میں
دل پر لگی وہ چوٹ کہ اف کر کے رہ گئے
ٹوٹا جو گرکے جام کوئی بزم یار میں
گر ان پہ اختیار نہیں ہے نہیں سہی
غم ہے یہی کہ دل بھی نہیں اختیار میں
اے دل خدا کی یاد میں
کچھ کم پھرے صنم کدۂ روزگار میں
مولانا ابوالکلام آزاد
یوم پیدائش 11 نومبر 1935
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگان صبح نے چہرے چھپا لیے
ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کے سجا لیے
میزان عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے
ہر مرحلہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچے چھپا لیے
سبط علی صبا
بیاد مولانا ابوالکلام آزاد
تاریخ ولادت 11 نومبر 1888
تاریخ وفات : 22 فروری 1958
شخصیت آزاد کی تھی مرجع اہل نظر
ان کو حاصل تھا جہاں میں عز و جاہ و کر وفر
ہے " غبار خاطر " ان کے فکر و فن کی ترجمان
ان کے رشحات قلم ہیں مظہر علم و ہنر
ان کی عظمت کے نشاں ہیں " الہلال " و " البلاغ "
جس میں ہیں اردو صحافت کے سبھی لعل و گہر
"ترجمان القرآں " ہے ان کی بصیرت کی گواہ
ان کی اردو فارسی عربی پہ تھی گہری نظر
شخصیت پر ان کی ہے اقبال کا صادق یہ قول
ہوتے ہیں پیدا بڑی مشکل سے ایسے دیدہ ور
ان کی تقریروں سے عصری آگہی ہے ہمکنار
ان کی تحریریں ہیں اک آٸینہ نقد و نظر
اس صدی کی تھے وہ برقی شخصیت تاریخ ساز
ان کا فن آٸینہ ایام میں ہے جلوہ گر
احمد علی برقی اعظمی
دونوں ہی آج رنج و الم سے نکل گ
دونوں کے زخم بھرگئے دونوں سنبھل گئے
ہوتا تھا خوش میں جن کی ترقی پہ دوستو
وہ لوگ آج میری ترقی سے جل گئے
اک روز تھے عروج پہ جو چاند کی طرح
سورج کی طرح آج وہی لوگ ڈھل گئے
مانا کہ کل تلک وہ مرے دل میں تھے مگر
یہ سچ ہے آج وہ مرے دل سے نکل گئے
کل تک جو میرے ساتھ تھے غضنی وہ اب نہیں
بدلا جو وقت میرا تو سارے بدل گئے
غضنفر غضنی
یوم پیدائش 10 نومبر 1977
ایک رستے کی کہانی جو سنی پانی سے
ہم بھی اس بار نہیں بھاگے پریشانی سے
میری بے جان سی آنکھوں سے ڈھلکتے آنسو
آئینہ دیکھ رہا ہے بڑی حیرانی سے
میرے اندر تھے ہزاروں ہی اکیلے مجھ سے
میں نے اک بھیڑ نکالی اسی ویرانی سے
مات کھائے ہوئے تم بیٹھے ہو دانائی سے
جیت ہم لے کے چلے آئے ہیں نادانی سے
ورنہ مٹی کے گھڑے جیسے بدن ہیں سارے
معرکے سر ہوئے سب جرأت ایمانی سے
آئینہ چپکے سے منظر وہ چرا لیتا ہے
تو سجاتا ہے بدن جب کبھی عریانی سے
سرفراز نواز
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...