Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

ابھے راج سنگھ شاد

 یوم پیدائش 18 فروری 1914 

 

گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک

بلبل کے یہ نغمے یہ ترنم کب تک

دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست

یہ کون بتائے کہ ہیں ہم تم کب تک


ابھے راج سنگھ شاد


لیاقت جعفری

 یوم پیدائش 18 فروری 1971


کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا

ایک ہی شخص سے دو بار محبت کرنا


جس کو تم چاہو کوئی اور نہ چاہے اس کو

اس کو کہتے ہیں محبت میں سیاست کرنا


سرمئی آنکھ حسیں جسم گلابی چہرا

اس کو کہتے ہیں کتابت پہ کتابت کرنا


دل کی تختی پہ بھی آیات لکھی رہتی ہیں

وقت مل جائے تو ان کی بھی تلاوت کرنا


دیکھ لینا بڑی تسکین ملے گی تم کو

خود سے اک روز کبھی اپنی شکایت کرنا


جس میں کچھ قبریں ہوں کچھ چہرے ہوں کچھ یادیں ہوں

کتنا دشوار ہے اس شہر سے ہجرت کرنا


لیاقت جعفری


نثار احمد کلیم

 تاریخ پیدائش 17 فروری 1931


دامن نہ بچا پائے ہم ان کی محبت سے

پیروں میں کلیمؔ اپنے زنجیر نظر آئی


نثار احمد کلیم


حشم الرمضان

 یوم پیدائش 17 فروری 1934

    

  راکھ میرے نشیمن کی بکھری ہوئی

    فصل گل کاہے ’’صدقہ‘‘ اتارا ہوا


حشم الرمضان


محمد قاسم علوی

 یوم پیدائش 17 فروری 1949


اے امینِ قوم و مذہب ، ملک و ملت کے امام

آنے والا دور لے گا تم سے ہر پل کا حساب


محمد قاسم علوی


تسلیم نیازی

 یوم پیدائش 17 فروری 1966


بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے 

مجھ کو ملتا وہ زمانے سے ذرا سا پہلے 


ہجر کی ہم کو کچھ ایسی بری عادت ہے کہ ہم 

زہر کھا لیں ترے آنے سے ذرا سا پہلے 


گرچہ پکڑے نہ گئے دوستو لیکن ہم بھی 

چور تھے شور مچانے سے ذرا سا پہلے 


کچھ نہیں سوچا پرندوں سے شجر چھین لئے 

دشت میں شہر بسانے سے ذرا سا پہلے 


دھول تھے تم مرے قدموں سے لپٹنے پہ مصر؟

خاک تھے چاک پہ جانے سے ذرا سا پہلے 


جائے عبرت ہے کہ پھوٹیں نہ تمہاری آنکھیں 

مجھے یوں آنکھ دکھانے سے ذرا سا پہلے


تسلیم نیازی


قوس صدیقی

 یوم پیدائش 17 فروری 1946


لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار

کوئی تو دیکھے سنے دام بولتا بازار


سجا تو خوب ہے اب کے نیا نیا بازار

زمانہ جان تو لے کیا ہے ذائقہ بازار


پرائی جان کی قیمت فقط نظارہ نہیں

خدارا بند ہو ہر دن کا حادثہ بازار


یہی تو ہوتا ہے شیشے کے کاروبار کا حشر

اجڑ گیا ہے اچانک ہرا بھرا بازار


شب سیاہ سے خائف ہے یوں مری دیوار

سجا کے بیٹھی ہے آنگن میں شام کا بازار


بس اک تبسم دل سے خرید لیجے اسے

جہاں بھی جائیے اس جاں کا ہے کھلا بازار


پھر اپنے شور کی قیمت سمجھ سکے گا قوسؔ

نہ خواب دیکھ ذرا جا ٹہل کے آ بازار


قوس صدیقی


ریاض خیرآبادی

 یوم پیدائش 17 فروری 1833


میرے پہلو میں ہمیشہ رہی صورت اچھی

میں بھی اچھا مری قسمت بھی نہایت اچھی


آپ کی شکل بھلی آپ کی صورت اچھی

آپ کے طور برے آپ سے نفرت اچھی


حشر کے دن ہمیں سوجھی یہ شرارت اچھی

لے چلے خلد میں ہم دیکھ کے صورت اچھی


تجھ سے کہتا تھا کوئی یا تری تصویر سے آج

آنکھیں اچھی تری آنکھوں کی مروت اچھی


ہم نے سو بار شب وصل ملا کر دیکھا

اے فلک چاند سے وہ چاند سے صورت اچھی


نہ بنے کام تو کس کام کی نازک شکلیں

نازک اچھے نہ حسینوں کی نزاکت اچھی


اس سے کوئی نہیں اچھا جو تجھے پیار کرے

میں بھی اچھا ترے صدقے مری قسمت اچھی


تیری مدفن سے جو اٹھے وہ بری اے واعظ

ان کے ٹھوکر سے جو اٹھے وہ قیامت اچھی


جور تیرے بہت اچھے ستم گردوں سے

اور ان سے تری آنکھوں کی ندامت اچھی


منہ میں جب بات رکی چوم لیا پیار سے منہ

دم تقریر کسی شوخ کی لکنت اچھی


دیکھتے ہی کسی کافر کو بگڑ جاتی ہے

میں جو چاہوں بھی تو رہتی نہیں نیت اچھی


حسن صورت کی طرح حسن سخن ہے کم یاب

ایک ہوتی ہے ہزاروں میں طبیعت اچھی


تجھ سے جلتا ہے جو وہ اور جلاتے ہیں اسے

مرے حق میں مرے دشمن کی عداوت اچھی


آتے جاتے نظر آتی ہے جھلک چلمن سے

پردے پردے میں نکل آئی یہ صورت اچھی


خوگر غم کے لیے کچھ بھی نہیں عیش کا خواب

ایسی راحت سے ہمیشہ کی مصیبت اچھی


دے کے وہ بوسۂ لب شوق سے لیں دل میرا

عذر کیا ہے جو ملے مال کی قیمت اچھی


سن کے اشعار مرے سب یہی کہتے ہیں ریاضؔ

اس کی قسمت ہے بری اور طبیعت اچھی


ریاضؔ خیرآبادی


ع م شاہد

 یوم پیدائش 16 فروری 1973


ان سے مری پہچان پرانی لگتی ہے

دنیا ساری جنکی دیوانی لگتی ہے


سب کی نظر میں ہم ہی مجرم بن بیٹھے

دشمن کی یہ چال پرانی لگتی ہے


بیتی باتیں شاید ان کو یاد آئیں

اشکوں میں جو ان کے روانی لگتی ہے


دیکھ لیا ہے اس کو ایسی نظروں سے

اس کی صورت ہم کو سہانی لگتی ہے 


آزادی کی باتیں شاید بچوں کو

دور نو کی ایک کہانی لگتی ہے


ع م شاہد


بشریٰ فرخ

 یوم پیدائش 16 فروری 1954


بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے

دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے


چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں

تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے


ہوائے وقت نے جس بستئ دل کو اجاڑا ہے

اسے آباد کرنا کام کچھ آساں نہیں ہے


وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو

کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے


اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو

مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے


تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں

اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے


بشریٰ فرخ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...