یوم پیدائش 18 فروری 1914
گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک
بلبل کے یہ نغمے یہ ترنم کب تک
دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست
یہ کون بتائے کہ ہیں ہم تم کب تک
ابھے راج سنگھ شاد
یوم پیدائش 18 فروری 1914
گلشن میں یہ پھولوں کا تبسم کب تک
بلبل کے یہ نغمے یہ ترنم کب تک
دو روزہ ہے یہ جشنِ بہاراں اے دوست
یہ کون بتائے کہ ہیں ہم تم کب تک
ابھے راج سنگھ شاد
یوم پیدائش 18 فروری 1971
کتنا دشوار ہے جذبوں کی تجارت کرنا
ایک ہی شخص سے دو بار محبت کرنا
جس کو تم چاہو کوئی اور نہ چاہے اس کو
اس کو کہتے ہیں محبت میں سیاست کرنا
سرمئی آنکھ حسیں جسم گلابی چہرا
اس کو کہتے ہیں کتابت پہ کتابت کرنا
دل کی تختی پہ بھی آیات لکھی رہتی ہیں
وقت مل جائے تو ان کی بھی تلاوت کرنا
دیکھ لینا بڑی تسکین ملے گی تم کو
خود سے اک روز کبھی اپنی شکایت کرنا
جس میں کچھ قبریں ہوں کچھ چہرے ہوں کچھ یادیں ہوں
کتنا دشوار ہے اس شہر سے ہجرت کرنا
لیاقت جعفری
تاریخ پیدائش 17 فروری 1931
دامن نہ بچا پائے ہم ان کی محبت سے
پیروں میں کلیمؔ اپنے زنجیر نظر آئی
نثار احمد کلیم
یوم پیدائش 17 فروری 1949
اے امینِ قوم و مذہب ، ملک و ملت کے امام
آنے والا دور لے گا تم سے ہر پل کا حساب
محمد قاسم علوی
یوم پیدائش 17 فروری 1966
بھیڑ میں خود کو گنوانے سے ذرا سا پہلے
مجھ کو ملتا وہ زمانے سے ذرا سا پہلے
ہجر کی ہم کو کچھ ایسی بری عادت ہے کہ ہم
زہر کھا لیں ترے آنے سے ذرا سا پہلے
گرچہ پکڑے نہ گئے دوستو لیکن ہم بھی
چور تھے شور مچانے سے ذرا سا پہلے
کچھ نہیں سوچا پرندوں سے شجر چھین لئے
دشت میں شہر بسانے سے ذرا سا پہلے
دھول تھے تم مرے قدموں سے لپٹنے پہ مصر؟
خاک تھے چاک پہ جانے سے ذرا سا پہلے
جائے عبرت ہے کہ پھوٹیں نہ تمہاری آنکھیں
مجھے یوں آنکھ دکھانے سے ذرا سا پہلے
تسلیم نیازی
یوم پیدائش 17 فروری 1946
لگا رہا ہوں ہر اک در پہ آئنا بازار
کوئی تو دیکھے سنے دام بولتا بازار
سجا تو خوب ہے اب کے نیا نیا بازار
زمانہ جان تو لے کیا ہے ذائقہ بازار
پرائی جان کی قیمت فقط نظارہ نہیں
خدارا بند ہو ہر دن کا حادثہ بازار
یہی تو ہوتا ہے شیشے کے کاروبار کا حشر
اجڑ گیا ہے اچانک ہرا بھرا بازار
شب سیاہ سے خائف ہے یوں مری دیوار
سجا کے بیٹھی ہے آنگن میں شام کا بازار
بس اک تبسم دل سے خرید لیجے اسے
جہاں بھی جائیے اس جاں کا ہے کھلا بازار
پھر اپنے شور کی قیمت سمجھ سکے گا قوسؔ
نہ خواب دیکھ ذرا جا ٹہل کے آ بازار
قوس صدیقی
یوم پیدائش 17 فروری 1833
میرے پہلو میں ہمیشہ رہی صورت اچھی
میں بھی اچھا مری قسمت بھی نہایت اچھی
آپ کی شکل بھلی آپ کی صورت اچھی
آپ کے طور برے آپ سے نفرت اچھی
حشر کے دن ہمیں سوجھی یہ شرارت اچھی
لے چلے خلد میں ہم دیکھ کے صورت اچھی
تجھ سے کہتا تھا کوئی یا تری تصویر سے آج
آنکھیں اچھی تری آنکھوں کی مروت اچھی
ہم نے سو بار شب وصل ملا کر دیکھا
اے فلک چاند سے وہ چاند سے صورت اچھی
نہ بنے کام تو کس کام کی نازک شکلیں
نازک اچھے نہ حسینوں کی نزاکت اچھی
اس سے کوئی نہیں اچھا جو تجھے پیار کرے
میں بھی اچھا ترے صدقے مری قسمت اچھی
تیری مدفن سے جو اٹھے وہ بری اے واعظ
ان کے ٹھوکر سے جو اٹھے وہ قیامت اچھی
جور تیرے بہت اچھے ستم گردوں سے
اور ان سے تری آنکھوں کی ندامت اچھی
منہ میں جب بات رکی چوم لیا پیار سے منہ
دم تقریر کسی شوخ کی لکنت اچھی
دیکھتے ہی کسی کافر کو بگڑ جاتی ہے
میں جو چاہوں بھی تو رہتی نہیں نیت اچھی
حسن صورت کی طرح حسن سخن ہے کم یاب
ایک ہوتی ہے ہزاروں میں طبیعت اچھی
تجھ سے جلتا ہے جو وہ اور جلاتے ہیں اسے
مرے حق میں مرے دشمن کی عداوت اچھی
آتے جاتے نظر آتی ہے جھلک چلمن سے
پردے پردے میں نکل آئی یہ صورت اچھی
خوگر غم کے لیے کچھ بھی نہیں عیش کا خواب
ایسی راحت سے ہمیشہ کی مصیبت اچھی
دے کے وہ بوسۂ لب شوق سے لیں دل میرا
عذر کیا ہے جو ملے مال کی قیمت اچھی
سن کے اشعار مرے سب یہی کہتے ہیں ریاضؔ
اس کی قسمت ہے بری اور طبیعت اچھی
ریاضؔ خیرآبادی
یوم پیدائش 16 فروری 1973
ان سے مری پہچان پرانی لگتی ہے
دنیا ساری جنکی دیوانی لگتی ہے
سب کی نظر میں ہم ہی مجرم بن بیٹھے
دشمن کی یہ چال پرانی لگتی ہے
بیتی باتیں شاید ان کو یاد آئیں
اشکوں میں جو ان کے روانی لگتی ہے
دیکھ لیا ہے اس کو ایسی نظروں سے
اس کی صورت ہم کو سہانی لگتی ہے
آزادی کی باتیں شاید بچوں کو
دور نو کی ایک کہانی لگتی ہے
ع م شاہد
یوم پیدائش 16 فروری 1954
بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے
دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے
چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں
تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے
ہوائے وقت نے جس بستئ دل کو اجاڑا ہے
اسے آباد کرنا کام کچھ آساں نہیں ہے
وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو
کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے
اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو
مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے
تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں
اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے
بشریٰ فرخ
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...