Urdu Deccan

Thursday, July 14, 2022

امان اللہ ساغر

یوم پیدائش 01 جولائی 1957

کون ہے جس سے مرے دل کا مکاں روشن ہے
اک دیا جیسے سر قریۂ جاں روشن ہے

ان بہاروں کے چراغوں کو بھلا کیا معلوم
شمع کی طرح سر دشت خزاں روشن ہے

آگ سلگی ہوئی اندر کی طرف ہوگی ضرور
ورنہ بیرون میں کیوں اتنا دھواں روشن ہے 

آکے یہ قافلۂ دل بھی کہاں ٹھہرا ہے
ہے یقیں اپنا منور نہ گماں روشن ہے 

آئینے نصب تو ہیں شہر کی دیواروں پر
عکس کا حسن وہ پہلے سا کہاں روشن ہے

وہ مجھے دیکھ کے ہو جاتا ہے غمگین بہت
گویا چہرے سے مرا درد نہاں روشن ہے

اس کے ہی نور سے ذرے ہیں منور ساغر 
جس کے انوار سے یہ کاہکشاں روشن ہے

امان اللہ ساغر


 

مصطفی اکبر

یوم پیدائش 01 جولائی 1958

بھر کے لے آیا ہوں آنکھوں میں لبِ ِیار کا رنگ
رخِ ہر گل پہ نظر آنے لگا پیار کا رنگ

پھر چلی بادِ بہاری کہ مچل اٹھّا ہے دل
پھر بہار آئی ہے گلگوں ہوا گلزار کا رنگ

اور مہکے گی ابھی حسنِ دل آرا کی بہار
اور نکھرے گا ابھی گلشن ِ اشعار کا رنگ

سات رنگوں میں وہی رنگ بہت اچھا ہے
جس سے مل جائے مرے یار کے رخسار کا رنگ

مصطفی اکبر


 

مخدوم ارشد حبیبی

یوم پیدائش 01 جولائی 1960

کس نے پایا مقام سورج کا
سارا عالم غلام سورج کا
مذہب و ملک تک نہیں محدود
ہے کرم سب پہ عام سورج کا

مخدوم ارشد حبیبی



شمیم غازی پوری

یوم پیدائش 01 جولائی 1962

ہماری روح وہ صندل کا پیڑ ہے جس سے
لپٹ گئی ہے تری یاد ناگنوں کی طرح

شمیم غازی پوری



فرزانہ جاناں

یوم پیدائش 01 جولائی 1977

دل لگ گیا جو کسی کے حسن و جمال سے
تھے اور ہی طرح کے نئے خدوخال سے

کیوں دسترس میں آ کے بھی میرا نہیں ہوا
کچھ بھی عیاں نہیں ہے صنم تیری چال سے

ہوتا ہے ہم کلام وہ شام و سحر مگر
آنکھوں میں لگ رہے تھے نئے کچھ سوال سے

جاناںؔ تو اس کی یاد میں کیسے سما گئی؟
پوچھیں گے ایک دن اسی باکمال سے

فرزانہ جاناں



افراسیاب کامل

یوم پیدائش 01 جولائی 1961

بد قسمتی اٹل ہے جو نسلِ غلام کی
سو ہم نے ہر نظام کی حجت تمام کی
  
تقریبِ مسخراں میں ہیں اب صدرِ محترم
ترتیب میں روش ہی نہیں أحترام کی

پتلا کھڑا کیا تو ہے سانچے میں ریت کا
صورت بنی ہوٸی ہے نہ پختہ نہ خام کی

تھوڑا سا اختلاف تو پتھر ہوں ہاتھ میں
نامعتبر ہے قدر شناسی عوام کی

جو شام مل گئی ہے تو موقع ہے جانیے
اُس دل میں مستقل نہیں صورت قیام کی

دیکھو جسے وہی ہے ہوا کا سوار اب 
طرفہ روش چلی ہے مرے تیز گام کی

مذہب کو کس طرح سے نکالو گے ذہن سے
ملحوظ ہے اسی سے بشارت دوام کی

پیشہ ہے شاعری کا مگر اس کے بین بین 
تنخواہ نام کی ہے نہ تنخواہ کام کی

افراسیاب کامل



کنور بے چین

یوم پیدائش 01 جولائی 1942

دل پہ مشکل ہے بہت دل کی کہانی لکھنا 
جیسے بہتے ہوئے پانی پہ ہو پانی لکھنا 

کوئی الجھن ہی رہی ہوگی جو وہ بھول گیا 
میرے حصے میں کوئی شام سہانی لکھنا 

آتے جاتے ہوئے موسم سے الگ رہ کے ذرا 
اب کے خط میں تو کوئی بات پرانی لکھنا 

کچھ بھی لکھنے کا ہنر تجھ کو اگر مل جائے 
عشق کو اشکوں کے دریا کی روانی لکھنا 

اس اشارے کو وہ سمجھا تو مگر مدت بعد 
اپنے ہر خط میں اسے رات کی رانی لکھنا

کنور بے چین



آصف ثاقب

یوم پیدائش 01 جولائی 1939

نمو کی خاک سے اٹھے گا پھر لہو میرا 
عقب سے وار کرے چاہے جنگ جو میرا 

لکیر کھینچ کے مجھ پہ وہ پھر مجھے دیکھے 
نگار و نقش میں چہرہ ہے ہو بہ ہو میرا 

رقیب تشنہ تو جی بھر کے خاک چاٹے گا 
چٹخ کے ٹوٹ گیا ہاتھ میں سبو میرا 

میں اپنی روح کی تاریکیوں میں جھانک چکا 
نکل سکا نہ کمیں گاہ سے عدو میرا 

یہ روپ اپنے مسیحا کا دیکھ کر ثاقبؔ 
اٹک کے رہ ہی گیا سانس در گلو میرا

آصف ثاقب


l

خلیفہ عبد الحکیم

یوم پیدائش 01 جولائی 1893

آنکھ جس سمت اٹھائی تراکعبہ دیکھا
ذرّے ذرّے کو یہاں ناصیہ فرسا دیکھا

ہے تری راہ میں ہر ایک قدم چشمہ نُور
ہم نے ہر نقشِ قدم کو یدِ بیضا دیکھا

ہم نے ہر ذرّے کو اِک دیدۂ مجنوں پایا
ہرنظر گاہ کو اِک محملِ لیلیٰ دیکھا 

جس کو دعویٰ ہے کہ ہوں خلوتِ جاں میں مستور
شوقِ جلوت میں اُسے انجمن آرا دیکھا

 پھول کا رنگ ہو یا طائرِ گلشن کی ترنگ
 ہم نے ہر رنگ میں اظہارِ تمنا دیکھا

ہے فنا اور بقا زیر و بمِ موج وجود
جس کا ساحل ہی نہیں ہم نے وہ دریا دیکھا

خلیفہ عبد الحکیم 


 

خواجہ شوق

یوم پیدائش 01 جولائی 1925

ایک بے حاصل طلب بے نام اک منزل بنا
ٹوٹنے کے بعد ہی دل در حقیقت دل بنا

منزلیں ہی کیا نیا ہر جادۂ منزل بنا
لیکن اپنے آپ کو پہلے کسی قابل بنا

ہم فریب رنگ و بو کھا کر بھی آگے بڑھ گئے
کم نگاہوں کے لیے ہر مرحلہ مشکل بنا

کس قدر عہد آفریں عالم ہے تیری ذات کا
جو تری محفل میں آیا وہ خود اک محفل بنا

غم سے نا مانوس رہنے تک تھیں ساری تلخیاں
رفتہ رفتہ غم ہی اپنی عمر کا حاصل بنا

پی گئے کتنے ہی آنسو ہم بہ نام زندگی
ایک مدت میں کہیں دل درد کے قابل بنا

جذبۂ منزل سلامت راستوں کی کیا کمی
ہم جدھر نکلے نیا اک جادۂ منزل بنا

ہر مقام زندگی پر تھا مرا عالم جدا
میں کہیں طوفاں کہیں کشتی کہیں ساحل بنا

تبصرے کرنے لگے ہیں لوگ حسب حوصلہ
شوقؔ آسانی سے میں کچھ اور بھی مشکل بنا

خواجہ شوق



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...