Urdu Deccan

Sunday, September 18, 2022

اکرام وارثی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1968

کیا کیا بتائیں آپ کو شام و سحر سے ہم
تنگ آچکے ہیں آج بہت ہر بشر سے ہم

ہم کو ہمارے رب نے عطا کی ہے جب نظر
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

ماں کی دعائیں ساتھ لیں زادِ سفر کے ساتھ
جب بھی چلے سفر کے لیے اپنے گھر سے ہم

صیاد ہوگیا وہیں مقصد میں کامیاب
بازو جہاں سمیٹ لیے اپنے ڈر سے ہم

گھر تک ہمارے آگئیں دنیا کی آفتیں
محروم جب ہوئے ہیں تمھاری نظر سے ہم

ظالم زمانہ جینے نہیں دے گا پھر مجھے
خالی اٹھیں گے آج اگر تیرے در سے ہم

اکرم کبھی اڑے ہیں جو ہم حوصلوں کے ساتھ
آگے بہت نکل گئے شمس و قمر سے ہم

اکرام وارثی



مشتاق احمد حامی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1955

دیکھ کانٹوں کے بھی ہونٹوں سے ٹپکتا ہے لہو
اس قدر گرم ہواؤں نے ستم ڈھایا ہے

مشتاق احمد حامی

 


حیدر قریشی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1953

وصل کی شب تھی اور اجالے کر رکھے تھے 
جسم و جاں سب اس کے حوالے کر رکھے تھے 

جیسے یہ پہلا اور آخری میل ہوا ہو
حال تو دونوں نے بے حالے کر رکھے تھے 

کھوج رہے تھے روح کو جسموں کے رستے سے 
طور طریقے پاگلوں والے کر رکھے تھے

ہم سے نادانوں نے عشق کی برکت ہی سے 
کیسے کیسے کام نرالے کر رکھے تھے 

وہ بھی تھا کچھ ہلکے ہلکے سے میک اپ میں 
بال اپنے ہم نے بھی کالے کر رکھے تھے 

اپنے آپ ہی آیا تھا پھر مرہم بن کر
جس نے ہمارے دل میں چھالے کر رکھے تھے 

حیدرؔ اپنی تاثیریں لے آئے آخر 
ہجر میں ہم نے جتنے نالے کر رکھے تھے

حیدر قریشی


 

بہار النساء بہار

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1952

اس کے پر کیف موسم کا اثر کیسا لگا 
اس بہار نو شگفتہ کا ثمر کیسا لگا 

میں نہ کہتی تھی اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں 
آپ نے دیکھا مرا ویران گھر کیسا لگا 

میں نے اک بت کو تراشا ہے زمانے کے لئے 
اے ہنر مندو مرا کار ہنر کیسا لگا 

ظلمتوں کے ساتھ تو تم نے نبھایا عمر بھر 
شب گزیدہ لوگو انداز سحر کیسا لگا 

کیسا منظر ہے کہ ہے گل پوش دنیا کا دروغ 
زندگی کا سچ مقام دار پر کیسا لگا 

یہ بتاؤ لوٹ کر آ ہی گئے ہو تم اگر 
زیست کے بے نام شہروں کا سفر کیسا لگا 

میں نے دروازہ تری خاطر کیا تھا وا بہارؔ 
تو بتا دے تجھ کو الفت کا نگر کیسا لگا 

بہار النساء بہار


 

شارب ردولوی

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1935

شناسا یوں تو سب چہرے بہت ہیں 
مگر ملنے میں اندیشے بہت ہیں 

سزا لب کھولنے کی بھی ملی ہے 
خموشی میں بھی دکھ جھیلے بہت ہیں 

ہیں سارے راستے مسدود لیکن 
ہر اک جانب کو دروازے بہت ہیں 

میں ایک اک لفظ میں لیتا ہوں سانسیں 
کتابوں میں مرے قصے بہت ہیں 

وہی اک بات جو سب سے چھپائی 
اسی اک بات کے چرچے بہت ہیں 

ہمیں جانے سے پھر کیوں روکتے ہیں 
اگر اس شہر میں ہم سے بہت ہیں 

اگر قسمت میں شاربؔ خواب ہی ہیں 
تو ایسے خواب تو دیکھے بہت ہیں 

شارب ردولوی



دشینت کمار

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1933

وہ آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے 
ماتھے پہ اس کے چوٹ کا گہرا نشان ہے 

وہ کر رہے ہیں عشق پہ سنجیدہ گفتگو 
میں کیا بتاؤں میرا کہیں اور دھیان ہے 

سامان کچھ نہیں ہے پھٹے حال ہے مگر 
جھولے میں اس کے پاس کوئی سنویدھان ہے 

اس سر پھرے کو یوں نہیں بہلا سکیں گے آپ 
وہ آدمی نیا ہے مگر ساؤدھان ہے 

پھسلے جو اس جگہ تو لڑھکتے چلے گئے 
ہم کو پتہ نہیں تھا کہ اتنی ڈھلان ہے 

دیکھے ہیں ہم نے دور کئی اب خبر نہیں 
پاؤں تلے زمین ہے یا آسمان ہے 

وہ آدمی ملا تھا مجھے اس کی بات سے 
ایسا لگا کہ وہ بھی بہت بے زبان ہے

دشینت کمار


 

بیگم سلطانہ ذاکر ادا

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1929

زندگی تیرا اعتبار نہیں 
اس لیے تیرا انتظار نہیں 

تجھ کو مطلب نہیں زمانے سے 
آرزو تیری پر بہار نہیں 

تیری چاہت میں گم ہوئی دنیا 
پھر بھی تجھ کو کسی سے پیار نہیں 

تیرے آنے پہ شاد ہوتے ہیں 
جن کا جانے پر اختیار نہیں 

تو نے رسم وفا نہ جانی کبھی 
بے رخی کا تری شمار نہیں 

تو نے جب چاہا منہ کو موڑ لیا 
تو کسی کی بھی غم گسار نہیں 

تیرے جانے سے دل ملول ہیں ہم 
تو کسی کی بھی جاں نثار نہیں 

تیری ہر ایک ادا سہانی سہی 
تو قریں ہے مگر قرار نہیں

بیگم سلطانہ ذاکر ادا



شیر افضل جعفری

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1909

زندگی رین بسیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 
یہ نفس عمر کے پھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

جسے نادان کی بولی میں صدی کہتے ہیں 
وہ گھڑی شام سویرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

دل کبھی شہر سدا رنگ ہوا کرتا تھا 
اب تو اجڑے ہوئے ڈیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

ہاتھ میں بین ہے کانوں کی لوؤں میں بالے 
یہ ریاکار سپیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

سانس کے لہرئیے جھونکوں سے پھٹا جاتا ہے 
جسم کاغذ کے پھریرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

آج انسان کا چہرہ تو ہے سورج کی طرح 
روح میں گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

وقت ہی سے ہے شرف دست دعا کو حاصل 
بندگی سانجھ سویرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

فقر مخدوم ہے لج پال ہے لکھ داتا ہے 
تاج بے رحم لٹیرے کے سوا کچھ بھی نہیں 

شیر افضل جعفری



سلطان اختر

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1940

سلسلہ میرے سفر کا کبھی ٹوٹا ہی نہیں 
میں کسی موڑ پہ دم لینے کو ٹھہرا ہی نہیں 

خشک ہونٹوں کے تصور سے لرزنے والو 
تم نے تپتا ہوا صحرا کبھی دیکھا ہی نہیں 

اب تو ہر بات پہ ہنسنے کی طرح ہنستا ہوں 
ایسا لگتا ہے مرا دل کبھی ٹوٹا ہی نہیں 

میں وہ صحرا جسے پانی کی ہوس لے ڈوبی 
تو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کے برسا ہی نہیں 

ایسی ویرانی تھی در پہ کہ سبھی کانپ گئے 
اور کسی نے پس دیوار تو دیکھا ہی نہیں 

مجھ سے ملتی ہی نہیں ہے کبھی ملنے کی طرح 
زندگی سے مرا جیسے کوئی رشتہ ہی نہیں

سلطان اختر



راہی معصوم رضا

یوم پیدائش 01 سپتمبر 1927

جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
شاخ گل کیسی ہے خوشبو کے مکاں کیسے ہیں

اے صبا تو تو ادھر ہی سے گزرتی ہوگی
اس گلی میں مرے پیروں کے نشاں کیسے ہیں

پتھروں والے وہ انسان وہ بے حس در و بام
وہ مکیں کیسے ہیں شیشے کے مکاں کیسے ہیں

کہیں شبنم کے شگوفے کہیں انگاروں کے پھول
آ کے دیکھو مری یادوں کے جہاں کیسے ہیں

کوئی زنجیر نہیں لائق اظہار جنوں
اب وہ زندانئ انداز بیاں کیسے ہیں

لے کے گھر سے جو نکلتے تھے جنوں کی مشعل
اس زمانہ میں وہ صاحب نظراں کیسے ہیں

یاد جن کی ہمیں جینے بھی نہ دے گی راہیؔ
دشمن جاں وہ مسیحا نفساں کیسے ہیں

راہی معصوم رضا



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...