(نظم) یہی زندگی ہے
دل کی اداس نگری میں
جب یادوں کی بانسری بجتی ہیں
تو کتنی ہی
اودی پیلی نیلی یادوں کی شہنائیاں
احساس کے گھنگرو بجا دیتی ہیں
ان شہنائیوں کی کرب ریز و نشاط انگیز آوازیں
کبھی روح کو احساس فرحت کے ناچ نچانے پر
مجبور کرتی ہیں
اور کبھی
ستم زدہ خیالات کے سمندر کی تند و تیز لہروں کو
مگرمچھوں کے کرتب سکھاتی ہیں
پھر یہ مگرمچھ اپنے نوکیلے دانت
دل کے نہاں خانوں میں پیوست کرکے
احساس کے موتیوں کو نکال کر
دماغ کے الاؤ پر ڈال دیتے ہیں
اور انسان رفتہ رفتہ ماضی کے نشیب و فراز کی
آگ میں جلنا شروع ہو جاتا ہے
آگ کی آنچ حسرت کے لوہے کو
آہستہ آہستہ اتنا گرما دیتی ہے کہ
آنکھوں کے سامنے صرف دھواں ہی دھواں
رہ جاتا ہے تاہم
جب دماغ کی تپش پر راحت کی شبنم
پڑ جاتی ہے تو دل میں
مسرت کا سمندر موجیں مارنا شروع کر دیتا ہے
اور یہی کرب ریز حسرت اور نشاط انگیز یادیں
زندگی کہلاتی ہیں