Urdu Deccan

Thursday, December 1, 2022

ریاض توحیدی

یوم پیدائش 01 دسمبر 1973

(نظم) یہی زندگی ہے

دل کی اداس نگری میں 
جب یادوں کی بانسری بجتی ہیں 
تو کتنی ہی 
اودی پیلی نیلی یادوں کی شہنائیاں 
احساس کے گھنگرو بجا دیتی ہیں 
ان شہنائیوں کی کرب ریز و نشاط انگیز آوازیں 
کبھی روح کو احساس فرحت کے ناچ نچانے پر 
مجبور کرتی ہیں 
اور کبھی 
ستم زدہ خیالات کے سمندر کی تند و تیز لہروں کو 
مگرمچھوں کے کرتب سکھاتی ہیں 
پھر یہ مگرمچھ اپنے نوکیلے دانت 
دل کے نہاں خانوں میں پیوست کرکے 
احساس کے موتیوں کو نکال کر 
دماغ کے الاؤ پر ڈال دیتے ہیں 
اور انسان رفتہ رفتہ ماضی کے نشیب و فراز کی 
آگ میں جلنا شروع ہو جاتا ہے 
آگ کی آنچ حسرت کے لوہے کو 
آہستہ آہستہ اتنا گرما دیتی ہے کہ 
آنکھوں کے سامنے صرف دھواں ہی دھواں 
رہ جاتا ہے تاہم 
جب دماغ کی تپش پر راحت کی شبنم 
پڑ جاتی ہے تو دل میں 
مسرت کا سمندر موجیں مارنا شروع کر دیتا ہے 
اور یہی کرب ریز حسرت اور نشاط انگیز یادیں 
زندگی کہلاتی ہیں 

ریاض توحیدی



عبد الرحیم پریمی

یوم پیدائش 01 دسمبر 1924

آنے نہ دیا حرف محبت کی جبیں پر
ہر گاہ وفا سمجھا کیا ان کی جفا کو

عبد الرحیم پریمی



نظیر فتح پوری

یوم پیدائش 01 دسمبر 1946

آسماں کا نہ رہا اور زمیں کا نہ رہا 
غم کی جو شاخ سے ٹوٹا وہ کہیں کا نہ رہا 

اتنے بے رنگ اجالوں سے نظر گزری ہے 
حوصلہ آنکھ کو اب خواب حسیں کا نہ رہا 

وقت نے سارے بھروسوں کے شجر کاٹ دئے 
اب تو سایہ بھی کوئی خاک نشیں کا نہ رہا 

کون اب اس کو اجڑنے سے بچا سکتا ہے 
ہائے وہ گھر کہ جو اپنے ہی مکیں کا نہ رہا 

اے نظیرؔ اپنی شرافت ہے اسی کی قائل 
ہاں کا پابند ہوا جب تو نہیں کا نہ رہا 

نظیر فتح پوری



نور زماں ناوک

یوم پیدائش 01 دسمبر 1948

عجب طرح کے کئی وسوسوں نے گھیرا ہے
کچھ ایسے وقت کے ان پر بتوں نے گھیرا ہے

گئے دنوں کی صعوبت ابھی نہیں بُھولی
نئی رُتوں میں نئی صُورتوں نے گھیرا ہے

یہ روز و شب مِرے ہم وار ہو نہیں پائے
رادائے زیست کو یوں سلوٹوں نے گھیرا ہے

یہ کیا غضب ہے کہ سانسیں تو ہیں رواں میری
فصیلِ جاں کومگر کر گسوں نے گھیرا ہے

خدائے نطق عطاکر اسے حسیں لہجہ
مِرے لہو کو کڑی تلخیوں نے گھیرا ہے

عطا ہوا مِرے آنگن کو غول چڑیوں کا
بہ طورِ خاص مجھے رحمتوں نے گھیرا ہے

مِرے طواف کو نکلی ہیں تتلیاں ناوک
مِرے وجود کو رعنائیوں نے گھیرا ہے

نور زماں ناوک



۔۔ رائے عمر حیات

یوم پیدائش 01 دسمبر 1969

دلوں پر راج کر کے رہتے ہیں
دوست محتاج کر کے رہتے ہیں

کر کے رہتے ہیں تخت قدموں میں
سروں پر تاج کر کے رہتے ہیں

دوستوں کی خوشی کے واسطے کام
کوٸی یا کاج کر کے رہتے ہیں

رند میخانے میں ملیں جیسے
جشن معراج کر کے رہتے ہیں

عمر جنت حسین دوست ہیں بس
فیصلہ آج کر کے رہتے ہیں

۔۔ رائے عمر حیات



سرور جہاں آبادی

یوم پیدائش 01 دسمبر 1873

فقیروں پہ اپنے کرم اک ذرا کر
ترے در پہ بیٹھے ہیں دھونی رما کر

بہت دیر سے در پہ سادھو کھڑے ہیں
فقیروں پہ داتا دیا کر دیا کر

نہیں ہم کو خواہش کسی اور شے کی
ہمیں اپنے جوبن کا صدقہ عطا کر

سرورؔ ان کی نگری میں برسوں پھرے ہم
فقیرانہ بھیس اپنا اکثر بنا کر

سرور جہاں آبادی



جعفر رضا

یوم پیدائش 10 دسمبر 1939

دیکھے تو تمدن کا بننا کوئی اردو میں 
بیگانہ مزاجوں کی ہے دوستی اردو میں 

الفاظ نئے ڈھالے کیا کیا نئی اردو میں 
رائج متبادل ہیں جن کے کئی اردو میں 

ہے قید علاقے کی مذہب کی نہ ملت کی 
ملتے ہیں دل و جاں کے رشتے کئی اردو میں 

ژولیدہ بیاں وہ ہیں پیچیدہ زباں ان کی 
اک شرط صفائی کی بس رہ گئی اردو میں 

ہے ترجمے کے بل پر یہ دام زباں دانی 
اک کاوش بے دانش پھر پھنس گئی اردو میں 

اب شاید اسی صورت کچھ بات بنے ان کی 
سوچی تھی جو انگلش میں تحریر کی اردو میں 

یہ ان کی نگارش ہے یا دوسروں کی اترن
یہ ساری بڑی باتیں ہیں کون سی اردو میں 

دیکھی جو مری اچکن وہ شوخ پکار اٹھا 
جچنے لگے سرکار اب اپنی نئی اردو میں 

کیا خوب ہی جچتی ہے ان مشرقی کپڑوں میں 
انگریزی میں یہ کیا تھی کیا ہو گئی اردو میں 

شکوہ نہ شکایت ہے پیچیدہ بیانی کی 
کیوں تلخ یہ لہجہ ہے کہیے بھئی اردو میں 

جعفر رضا

انشا اللہ خاں انشا

یوم پیدائش 01 دسمبر 1752

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں

خیال ان کا پرے ہے عرش اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں

بسان نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں

کہیں ہیں صبر کس کو آہ ننگ و نام ہے کیا شے
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں

کہیں بوسے کی مت جرأت دلا کر بیٹھیو ان سے
ابھی اس حد کو وہ کیفی نہیں ہشیار بیٹھے ہیں

نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں

نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں

کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

انشا اللہ خاں انشا



نصیر پرواز

یوم پیدائش 01 دسمبر 1940

صدیوں کو راستے دکھا لمحوں کو سازگار کر
دل کو بنا چراغِ شب سورج کو شرمسار کر

 شکر ، سکوں نصیبِ جاں ، صبر، حیات رائیگاں
 سوزِ طریق زندگی لمحوں یہ اختیار کر
 
 ان کے بغیر روح کو کیسے ملے کھلی فضا
 آگ کو ہم زباں بنا دریا کو راز دار کر
 
 مل جاؤں راہ میں اگر یہ بھی ترا نصیب ہے
 میں نے یہ تجھ سے کب کہا تو میرا انتظار کر
 
 دیکھ یہیں کہیں ہوں میں سوچ کہیں نہیں ہوں میں
 اچھا ہے اپنے ذہن سے رکھ دے مجھے اتار کر
 
 یادیں کبھی بھلا چکے، نقشِ وفا مٹا چکے
 اب تو شکستہ دائرے فکر کے بے حصار کر
 
 ایسا نہ ہو کہ راستے سارا حساب پوچھ لیں
 راز ِشکستِ آرزو سب پر نہ آشکار کر
 
 کربِ تلاشِ ذات کو تازہ ہوا سے دور رکھ 
 آیا ہوں تیرے سامنے سارے سوال ہار کر
 
 اتریں گی آسمان سے اک دن زمیں پہ راحتیں
 دن کو بھی رکھ نگاہ میں شب پر بھی اعتبار کر
 
نصیر پرواز


 

غلام حسین ساجد

یوم پیدائش 01 دسمبر 1952

صبح تک جن سے بہت بیزار ہو جاتا ہوں میں 
رات ہوتے ہی انہی گلیوں میں کھو جاتا ہوں میں 

خواب میں گم ہوں کہ باہر کی فضا اچھی نہیں 
آنکھ کھلتے ہی کہیں زنجیر ہو جاتا ہوں میں 

کھینچ لاتی ہے اسی کوچے میں پھر آوارگی 
روز جس کوچے سے اپنے شہر کو جاتا ہوں میں 

اس اندھیرے میں چراغ خواب کی خواہش نہیں 
یہ بھی کیا کم ہے کہ تھوڑی دیر سو جاتا ہوں میں 

رات لاتی ہے کسی کے قرب کی خواہش مگر 
صبح ہوتے ہی کسی سے دور ہو جاتا ہوں میں 

جی میں آتا ہے کہ دنیا کو بدلنا چاہئے 
اور اپنے آپ سے مایوس ہو جاتا ہوں میں 

بارے باغ صحن دنیا میں بہت دن رہ لیا 
خوش رہو اب اس گلی سے دوستو جاتا ہوں میں

غلام حسین ساجد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...