Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

آتش رضا شیخ پوری

یوم پیدائش 04 جنوری 1962

آئنہ ہی بس ہمارا ایک سچا دوست ہے
ہم اگر روتے بھی ہیں تو وہ کبھی ہنستا نہیں

آتش رضا شیخ پوری



آشو مشرا

یوم پیدائش 04 جنوری 1993

دل کو اب ہجر کے لمحات میں ڈر لگتا ہے 
گھر اکیلا ہو تو پھر رات میں ڈر لگتا ہے 

ایک تصویر سے رہتا ہوں مخاطب گھنٹوں 
جب بھی تنہائی کے حالات میں ڈر لگتا ہے 

میری آنکھوں سے مرے جھوٹ عیاں ہوتے ہیں 
اس لیے تجھ سے ملاقات میں ڈر لگتا ہے 

لمحۂ قرب میں لگتا ہے بچھڑ جائیں گے 
ہاتھ جب بھی ہو ترے ہاتھ میں ڈر لگتا ہے 

آج کل میں انہیں جلدی ہی بدل دیتا ہوں 
آج کل دل کے مکانات میں ڈر لگتا ہے 

جسم کی آگ کو بارش سے ہوا ملتی ہے 
ساتھ میں تو ہو تو برسات میں ڈر لگتا ہے 

آشو مشرا



فہمی بدایونی

یوم پیدائش 04 جنوری 1952

پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا 
کتنا آسان تھا علاج مرا 

چارہ گر کی نظر بتاتی ہے 
حال اچھا نہیں ہے آج مرا 

میں تو رہتا ہوں دشت میں مصروف 
قیس کرتا ہے کام کاج مرا 

کوئی کاسہ مدد کو بھیج اللہ 
میرے بس میں نہیں ہے تاج مرا 

میں محبت کی بادشاہت ہوں 
مجھ پہ چلتا نہیں ہے راج مرا

فہمی بدایونی



انور جمال انور

یوم پیدائش 04 جنوری 1944

بے گھر تھا پھر چھوڑ گیا گھر جانے کیوں
پار کیا ہے سات سمندر جانے کیوں

آنکھیں حیراں دل ویراں ہیں چہرے زرد
چیخ رہا ہے منظر منظر جانے کیوں

آنکھوں میں مظلوموں کے بس آنسو ہیں
فکر میں ہے ہر ایک ستم گر جانے کیوں

تپتی ریت جھلستے سائے تند ہوا
گھر سے نکلا موم کا پیکر جانے کیوں

پھول سا چہرہ جھیل سی اس کی آنکھیں ہیں
یاد آتا ہے مجھ کو اکثر جانے کیوں

آتے جاتے سب سے باتیں کرتا تھا
چپ بیٹھا ہے آج قلندر جانے کیوں

میری غزلیں سن کر انورؔ چاہت سے
دیکھتا ہے ہر ایک سخنور جانے کیوں

انور جمال انور



ریاض ساغر

یوم پیدائش 03 جنوری 1959

موسم گل میں بھی ہر سمت خزاں چھائی ہے
کیسے کہدوں کہ گلستاں میں بہار آئی ہے

باغباں نوچ رہا ہے یہاں کلیوں کے بدن
پھول ہیں سہمے ہوئے ہر کلی مرجھائی ہے

ظلم اور جبر کے ایوان لرز اٹھے ہیں
آہ مظلوم کی جب عرش سے ٹکرائی ہے

مار ڈالے نہ کہیں تلخ نوائی ہم کو،
ہم‌ نے سچ بولتے رہنے کی قسم کھائی ہے

جس کو پالا تھا بڑے ناز سے وہ چھوڑ گیا
باپ نے کیسی بڑھاپے میں سزا پائی ہے

تانے اور بانے میں الجھے رہے تاعمر مگر
گتھی حالات کی ہم سے نہ سلجھ پائی ہے

صرف احساس ندامت تھا مری آنکھوں میں
رحمت حق مرے آنگن میں اتر آئی ہے

ریاض ساغر



جیا قریشی

یوم پیدائش 03 جنوری 1965

نسخہِ درد کی تالیف نہیں ہوسکتی
ہائے اس باب میں تخفیف نہیں ہوسکتی

عدل و انصاف مرا دِیں ہے ،لہٰذا مجھ سے
منظرِ ظلم کی تعریف نہیں ہوسکتی

نفرتوں میں کبھی ترمیم تو ہوسکتی ہے
الفتوں میں کبھی تحریف نہیں ہوسکتی

رہنے دیجیے یہ وفا ، آپ کو معلوم تو ہے
اس قدر آپ سے تکلیف نہیں ہوسکتی

کیوں بھلا آپ جُنوں وقفِ قلم کرتے ہیں؟
یہ کتاب آپ سے تصنیف نہیں ہوسکتی

ہائے وہ لفظ خزانے جو لٹائے تم پر
اب کسی اور کی توصیف نہیں ہو سکتی

جیا قریشی



آدرش دوبے

یوم پیدائش 03 جنوری 2001

سونا پڑا ہے دل کا مکاں آپ کے بنا 
رہ رہ کے اٹھ رہا ہے دھواں آپ کے بنا 

یوں تو کھلے ہیں پھول کئی رنگ کے مگر 
پھیکے پڑے ہیں دونوں جہاں آپ کے بنا 

یہ سوچ کے میں گھوم رہا ہوں یہاں وہاں 
راحت ملے گی دل کو کہاں آپ کے بنا 

بس اس لیے ہی گاؤں سے میں شہر آ بسا 
میں کیا کروں گا رہ کے وہاں آپ کے بنا 

آدرشؔ کہہ رہا ہے کہ مت آؤ میرے پاس 
برباد ہو گیا ہوں یہاں آپ کے بنا 

آدرش دوبے



بسمل عارفی

یوم پیدائش 03 جنوری 1970

خیال و خواب کی دنیا سے استفادہ کیا 
ہنر سمجھ کے اسی کام کو زیادہ کیا 

یہ تو نے کون سے منصب کی پاسداری کی 
بنایا میر مجھے خود کو میر زادہ کیا 

کمال یہ کہ جسے راستہ ملا ہی نہیں 
وہ کہہ رہا ہے سفر ہم نے پا پیادہ کیا 

کوئی بتاؤ کہ میں خود کو روکتا کیسے 
جب اس نے ساتھ مرے چلنے کا ارادہ کیا 

بہت دنوں پہ طبیعت ادھر ہوئی مائل 
بہت دنوں پہ صبا نے بھی دل کشادہ کیا

بسمل عارفی


ظہیر احمد پرواز

یوم پیدائش 03 جنوری 1946

آگیا اس کی اداؤں میں یہ کیسا انقلاب
کل تلک معصوم جو تھا آج قاتل ہوگیا

ظہیر احمد پرواز 



عبد الجمید فیضی

یوم پیدائش 03 جنوری 1940

دردِ دل کی داستاں سنتا ہے کون
اور سُن بھی لے تو سر دھنتا ہے کون

رنج و غم کے تپتے ریگستان میں
پاپیادہ دھوپ میں تپتا ہے کون

خود کو گاندھی وادی کہلاتے ہیں سب
اپنے کپڑے آپ ہی بنتا ہے کون

فیضیؔ سچ کہہ کرکبھی مت سوچیے
کون سنتا ہے‘ نہیں سنتا ہے کون

عبد الجمید فیضی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...