Urdu Deccan

Sunday, January 29, 2023

فوزیہ اختر ازکی

یوم پیدائش 17 جنوری

مرے کانوں میں ان کے لہجے کی پھر چاشنی اترے
زباں سے ان کی ہر اک بات بن کے نغمگی اترے

سدا روشن کیا ہے دل کو جن کی یاد سے ہم نے
ہمارے نام پر ان کے بھی دل میں روشنی اترے

مرے گلشن سے ہجرت پر خزاں مجبور ہو جائے
ہر اک برگ و شجر پر اس طرح سے تازگی اترے

سدا تہمت لگاتے ہیں وہ مجھ پر کیا کروں مولا
میں مریم تو نہیں جس کی صفائی میں وحی اترے

یہ مانا بخت میں میرے ازل سے رات ہے لیکن
کبھی تو میرے آنگن میں بھی اجلی چاندی اترے

میں خود کو آئینے میں دیکھ کر حیران رہ جاؤں
تمہارے پیار سے چہرے پہ ایسی دلکشی اترے

کسی ہمدرد کا کاندھا میسر فوزیہ کو ہو
تھکن برسوں کی اس کے جسم و جاں سے بھی کبھی اترے

فوزیہ اختر ازکی



حکیم منظور

یوم پیدائش 17 جنوری 1937

ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا 
وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا 

نہ دے سکا مجھے وسعت سمندروں کی مگر 
سمندروں کا مجھے اضطراب دے کے گیا 

وہ کس لیے مرا دشمن تھا جانے کون تھا وہ 
جو آنکھ آنکھ مسلسل سراب دے کے گیا 

خلا کے نام عطا کر کے چھاؤں کی میراث 
مجھے وہ جلتا ہوا آفتاب دے کے گیا 

وہ پیڑ اونچی چٹانوں پہ اب بھی تنہا ہیں 
انہی کو ساری متاع سحاب دے کے گیا 

ہر ایک لفظ میں رکھ کر سراب معنی کا 
ہر ایک ہاتھ میں وہ اک کتاب دے کے گیا 

میں کل ہوں اور تو جز میں بھی کل ہے اے منظورؔ 
بچھڑتے وقت مجھے یہ خطاب دے کے گیا

حکیم منظور



رشید ساقی

یوم پیدائش 17 جنوری 1926

سل گئے ہونٹ اگر آنکھ ہی نم ہو جائے
کاش جو بوجھ میرے دل پہ ہے کم ہو جائے

کوئی انداز تو جینے کا ہو انسان کے پاس
جسے راحت نہ ملے خوگرِغم ہو جائے

اس توقع پر ستم اس کے سہے جاتے ہیں
جانے کس وقت وہ مائل بہ کرم ہو جائے

سر فرازی مجھے مل جائے زمانے بھر کی
مرا سر آپؐ کی دہلیز پہ خم ہو جائے

مری تحریر ہو رنگین کہ سادہ ، کچھ ہو
کیفیت دل کی کسی طور رقم ہو جائے 

نہ وہ احباب ،نہ وہ صورت حالات، نہ ہم 
کیسے تسکین کا سامان بہم ہو جائے

مری فطرت کو عطا کر وہ بصیرت جس سے
دل جہاں بیس صفتِ ساغر جم ہو جائے

شاعری حسن صداقت کی ہو مظہر ساقی
مرا فن باعثِ توقیر قلم ہو جائے 

رشید ساقی



انور محمد انور

یوم پیدائش 16 جنوری 1983

زندگی کی جنگ میں جذبات سے لڑنے لگے
کھیلنے کی عمر میں حالات سے لڑنے لگے

اپنے حصے کی محبت بد نصیبی کھا گئی
ٹوٹ کے رونے لگے اوقات سے لڑنے لگے

ہار جانے پر کبھی بھی چین سے بیٹھے نہیں
جیتنا تھا اس لیے تو مات سے لڑنے لگے

انور محمد انور



محمد عثمان

یوم پیدائش 16 جنوری 1997

ہاتھ اپنے اٹھا دعا کے لئے 
مانگ سب کا بھلا خدا کے لئے

اور کوئی بھی در نہیں تیرا
سر جھکائے جہاں شفا کے لئے

منزلوں سے ہے واسطہ جن کا
وہ ترستے نہیں ضیا کے لئے

اپنے ماں باپ کا کہا مانو
یہ ہی کافی ہے بس بقا کے لئے

جن پہ راضی ہے اس کا ہمسایہ
ان پہ خوش ہے خدا سدا کے لئے

یاد عثمان کو کریں گے سب
یہ تو جیتا ہے بس وفا کے لئے

محمد عثمان



ڈاکٹر الف انصاری

یوم پیدائش 16 جنوری 1946

سورج چمک رہا تھا کھلے آسمان پر 
شعلے برس رہے تھے ہمارے مکان پر

تنقیص بال و پر جو کرتا رہا مدام
حیرت ہے آج اس کو ہماری اڑان پر

ہم اس خدا کے بندے ہیں حکمت سے بے بہا 
روزانہ جو اگانا ہے سبزہ چٹان پر

 خوددار ہے خودی پہ بڑا اس کو ناز ہے
 دے دے گا اپنی جان میاں اپنی آن پر
 
برکت کی بات کرتے ہو پڑھتے نہیں نماز
قرآں اٹھا کے رکھتے ہو اونچے مچان پر

نادان اس کو کیوں نہ کہیں ہم الف میاں
جس شخص کو بھروسہ ہے اپنی کمان پر

ڈاکٹر الف انصاری



عزت لکھنوی

یوم وفات 16 جنوری 1981

فکر بدلے گی تو پھر لوگ ہمیں پوجیں گے
بعد مرنے کے کیا جائے گا چرچہ اپنا

غیر تو وقت پہ کچھ کام بھی آ جاتے ہیں 
کوئی لیکن کبھی اپنوں میں نہ نکلا اپنا

لوگ تڑپیں گے اگر یاد کبھی آئے گی
ایسا اسلوب یہ انداز یہ لہجہ اپنا

عزت لکھنوی



احمد سلیم

یوم پیدائش 16 جنوری 1933

ہے مجھے خبر ان کو چپ سی لگ گئی ہوگی
جب وفا کا بھولے سے نام آگیا ہوگا

احمد سلیم



رعنا اکبر آبادی

یوم وفات 15 جنوری 1979

سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دعا سے
اک روز تمہیں مانگ کے دیکھیں گے خدا سے

جب کچھ نہ ملا ہاتھ دعاؤں کو اٹھا کر
پھر ہاتھ اٹھانے ہی پڑے ہم کو دعا سے

دنیا بھی ملی ہے غم دنیا بھی ملا ہے
وہ کیوں نہیں ملتا جسے مانگا تھا خدا سے

تم سامنے بیٹھے ہو تو ہے کیف کی بارش
وہ دن بھی تھے جب آگ برستی تھی گھٹا سے

اے دل تو انہیں دیکھ کے کچھ ایسے تڑپنا
آ جائے ہنسی ان کو جو بیٹھے ہیں خفا سے

آئینے میں وہ اپنی ادا دیکھ رہے ہیں
مر جائے کہ جی جائے کوئی ان کی بلا سے

رعنا اکبر آبادی



سہیل ارشد

یوم پیدائش 15 جنوری 1966

کپکپی کیسی ہے یہ رہ رہ کے میرے جسم میں
لمس کا اس کے اثر یا چھپکلی ہے جسم پر

سہیل ارشد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...