Urdu Deccan

Friday, February 24, 2023

اقبال متین

یوم پیدائش 02 فروری 1929

کتنے ہی لوگ دل تلک آ کر گزر گئے 
ہم اپنی لاش آپ اٹھا کر گزر گئے 

وہ یورش الم تھی کہ تیری گلی سے ہم 
تجھ کو بھی اپنے جی سے بھلا کر گزر گئے 

اہل خرد فسانوں کے عنواں بنے رہے 
اہل جنوں فسانے سنا کر گزر گئے 

اس احتیاط درد کی وحشت کہ ہم کبھی 
خود کو تری نظر سے چھپا کر گزر گئے 

تو ہی ملا نہ ہم ہی ملے اپنے آپ کو 
سائے سے درمیان میں آ کر گزر گئے 

اب تو بتاؤ ہم کو کہاں جاؤ گے متینؔ 
وہ کون تھے جو آگ لگا کر گزر گئے 

اقبال متین



امتیاز علی گوہر

یوم پیدائش 01 فروری 

دیا جب سے جلا کر رکھ دیا ہے 
ہواوں نے ستا کر رکھ دیا ہے 

کسی کی سرد مہری نے تو دل کے
الاو کو بجھا کر رکھ دیا ہے 

محبت دو دلوں کی تھی کہانی 
تماشا کیوں بنا کر رکھ دیا ہے 

مری پہچان مشکل تو نہیں تھی
کہ آئینہ دکھا کر رکھ دیا ہے 

بکھرتا جا رہا ہوں خود ہی گوہر 
بڑھاپے نے رلا کر رکھ دیا ہے 

 امتیاز علی گوہر



افضل شیر کوٹی

یوم پیدائش 01 فروری 1956

بے تابیِِ دل کو مری تسکین نہیں ہے
کیوں دور مرا آج وہ زرین نہیں ہے

گردوں میں ہر اک سمت ہے کرگس کی اڑانیں
نظروں میں مری کوئی بھی شاہین نہیں ہے

پھولوں کی جگہ اگنے لگے جابجا کانٹے
نرگس نہیں گلزار میں نسرین نہیں ہے

تم لاکھ کردو عدل و مساوات کے دعوے
قرآن سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہے

بدعات پہ ہم مٹنے لگے دین سمجھ کر
ہوں دین میں بدعات تو پھر دین نہیں ہے

یوروپ پہ تری یورش و یلغار تھی اک دن
ہاتھوں میں ترے آج فلسطین نہیں ہے

کیا دل میں ترے ذوقِ شہادت نہیں افضل
کیوں جامہ ترا خون سے رنگین نہیں ہے

افضل شیر کوٹی



شمیم ساگر

یوم پیدائش 01 فروری 1959

دین و دنیا جو لے کے ساتھ چلے
کامرانی اسی میں سب کی ہے

شمیم ساگر


 

تسنیم عابدی

یوم پیدائش 01 فروری 1961

مرے چارہ گر تجھے کیا خبر، جو عذاب ہجر و وصال ہے 
یہ دریدہ تن یہ دریدہ من تری چاہتوں کا کمال ہے 

مجھے سانس سانس گراں لگے، یہ وجود وہم و گماں لگے 
میں تلاش خود کو کروں کہاں مری ذات خواب و خیال ہے 

وہ جو چشم تر میں ٹھہر گیا وہ ستارہ جانے کدھر گیا 
نہ نشاط غم کا ہجوم اب نہ ہی سبز یاد کی ڈال ہے 

اسے فصل فصل بھی سینچ کر ملا سایہ اور نہ ملا ثمر 
یہ عجیب عشق کا پیڑ ہے یہ عجیب شاخ نہال ہے 

مرا حرف حرف اسی کا ہے مرے خواب خواب میں وہ بسا 
جو قریب رہ کے بھی دور ہے اسے پانا کتنا محال ہے

تسنیم عابدی



شائستہ جمال

یوم پیدائش 01 فروری 

پاس آئی ہوئی منزل کے اجالے دیکھے 
جب بھی لوگوں نے مرے پاؤں کے چھالے دیکھے 

کتنے خوددار تھے کٹ کر نہ گرے قدموں پر 
جتنے سر آپ نے نیزے سے اچھالے دیکھے 

مصلحت نام کو چھو کر نہیں گزری مجھ سے 
میرے ہونٹوں پہ کبھی آپ نے نالے دیکھے 

چاند کو دیکھا کبھی ہم نے ہوائیں چھو لیں 
کس طرح دل کے یہ ارمان نکالے دیکھے 

خواب سے جاگ کے شائستہؔ جب آنکھیں کھولیں 
کتنے الجھے ہوئے حالات کے جالے دیکھے

شائستہ جمال



ڈاکٹر الماس کبیر جاوید

یوم پیدائش 01 فروری 

ہے چشم نم ، مری پازیب چوڑیاں خاموش
اداس اداس ہیں کنگن، تو بالیاں خاموش

کیا ہے کوچ پرندوں نے رت بدلتے ہی
 چمن اداس ہے، پیڑوں کی ڈالیاں خاموش

جہاں پہ اپنی محبت کی جذب ہیں گونجیں
وہ کوہ سار ہیں خاموش، وادیاں خاموش

لباس پہنے ہوئے ،زر نگار کرنوں کا
بلا رہی ہیں پہاڑوں کی چوٹیاں خاموش

نہ جانے پھول نے کیا کان میں کی سرگوشی
کہ ہو گئی ہیں جو یکلخت تتلیاں خاموش

جہاں سے دل میں تو اترا تھا خواب بن کے کبھی
ہیں اب کے سونی وہ آہٹ سے سیڑھیاں خاموش

نہ ساز ہے نہ کوئی سوز ، صحنِ الفت میں
گزر گئی ہیں دسمبر کی سردیاں خاموش 
  
نہ جانے کون مسافر ہے جس کے جانے سے؟
اداس شام ہے گاؤں کی ڈیوڑھیاں خاموش

یہ کس فضا میں لیے جارہی ہو سانس الماس
شکار ہونے کے ڈر سے ہیں ہرنیاں خاموش

ڈاکٹر الماس کبیر جاوید



خالق عبداللہ

یوم پیدائش 01 فروری 1947

جنوں والوں سے ہرگز دشت پیمائی نہ جائے گی
ہزاروں شہر رکھ دو ، ان کی تنہائی نہ جائے گی

ہمیشہ پیار کا بادل ہی بن کر میں تو برسا ہوں
فضا جو بھی ہو مجھ سے آگ برسائی نہ جائے گی

تمھیں جانا ہے جاؤ توڑ دو سب پیار کے رشتے
تمھارے ساتھ تو اس گھر کی انگنائی نہ جائے گی

پرندوں کو فضا میں روک لیں گے روکنے والے
عقابوں کو مگر زنجیر پہنائی نہ جائے گی

میں بوسہ ریت کا لے کر ہوا ہوں پھر ترو تازہ
مرے چہرے سے ہرگز اب یہ رعنائی نہ جائے گی

ارے ویرانیو! جاؤ ٹھکانا اور ہی ڈھونڈو
یہ وہ آنکھیں ہیں جن کی خواب آرائی نہ جائے گی

کسی کی یاد کی ہے چاندنی چھٹکی ہوئی گھر میں
جھٹک دو لاکھ ذہنوں سے یہ ہرجائی نہ جائے گی

خالق عبداللہ



احسن علی خاں

یوم پیدائش 01 فروری 1922

اب تو بوسیدہ ہو چلے ہیں ہم 
ٹوٹنے پھوٹنے لگے ہیں ہم 

زخم دل کی کسک چھپانے کو 
جسم پر گھاؤ چاہتے ہیں ہم 

اب نہیں فکر سود رنج زیاں 
خوار ہونا تھا ہو چکے ہیں ہم 

اب سبھی کچھ ہمیں گوارا ہے 
ہائے کتنے بدل گئے ہیں ہم 

ہم سے دامن بچا کے چلتی ہے 
اے صبا تجھ کو جانتے ہیں ہم 

راہبر کے بغیر ہی احسنؔ 
نئی راہوں پہ چل سکے ہیں ہم

احسن علی خاں


 

Tuesday, January 31, 2023

احسان نانپاروی

یوم پیدائش 31 جنوری 1931

سفر ہے شرط رہ کہکشاں ہے تیرے لیے 
نئی زمین نیا آسماں ہے تیرے لیے 

بلا رہی ہے تجھے منزل بلند تری 
یہ نالۂ جرس کارواں ہے تیرے لیے 

ترے جنوں نے کھلائے لہو سے لالہ و گل 
بہار نازش صد گلستاں ہے تیرے لیے 

خوشا وہ عظمت فقر و خود آگہی تیری 
کہ خم جبین غرور شہاں ہے تیرے لیے 

بصیرت نگہ جذبۂ کلیمانہ 
عطا ہوئی ہے تجھے یہ جہاں ہے تیرے لیے 

احسان نانپاروی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...