Urdu Deccan

Monday, March 27, 2023

رضی ناطق

یوم پیدائش 01 مارچ 1918

اے رضیؔ میری وفا کی اور کیا ہوگی سند
آج بندے ماترم بھی شوق سے گاتا ہوں میں

رضی ناطق


 

الیاس وسیم صدیقی

یوم پیدائش 01 مارچ 1945

کوئی تو جا نہ سکا مہر و ماہ سے آگے
نکل گیا کوئی حدِ نگاہ سے آگے

اُکھڑ چکے تھے قدم احتیاط کے لیکن
مرا جنوں تھا خطِ انتباہ سے آگے

لہو بہائے بنا نصرتیں نہیں ملتیں
زمیں ہے سبز مگر رزم گاہ سے آگے

یہ شخص، پاؤں کے چھالے ہیں جس کا رختِ سفر
ابھی گیا ہے اسی شاہراہ سے آگے

تو جس کو مل گیا پرواز مل گئی اس کو
زمیں کہاں ہے تری جلوہ گاہ سے آگے

کرم یہ کس کا تھا پہنچا یقیں کی منزل تک
بڑھا تھا وہ تو رہِ اشتباہ سے آگے

یہ سینہ کوبی، یہ ماتم وسیؔم ترک بھی کر
کچھ اور رنگ ہیں سرخ و سیاہ سے آگے

الیاس وسیم صدیقی


 

اشرف یوسفی

یوم پیدائش 01 مارچ 1956

دیے کی آنکھ سے جب گفتگو نہیں ہوتی 
وہ میری رات کبھی سرخ رو نہیں ہوتی 

ہوا کے لمس میں اس کی مہک بھی ہوتی ہے 
وہ شاخ گل جو کہیں رو بہ رو نہیں ہوتی 

کسے نصیب یہ شیرینئ لب و لہجہ 
ہر ایک دشت میں یہ آب جو نہیں ہوتی 

میں حرف حرف میں پیکر ترا سموتا ہوں 
غزل تو ہوتی ہے پر ہو بہ ہو نہیں ہوتی 

کبھی کبھی تو میں خود سے کلام کرتا ہوں 
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے تو نہیں ہوتی

اشرف یوسفی



رفعت سلطان

یوم پیدائش 01 مارچ 1924

بہاروں کو چمن یاد آ گیا ہے 
مجھے وہ گل بدن یاد آ گیا ہے 

لچکتی شاخ نے جب سر اٹھایا 
کسی کا بانکپن یاد آ گیا ہے 

مری خاموشیوں پر ہنسنے والو 
مجھے وہ کم سخن یاد آ گیا ہے 

تمہیں مل کر تو اے یزداں پرستو 
غرور اہرمن یاد آ گیا ہے 

تری صورت کو جب دیکھا ہے میں نے 
عروج فکر و فن یاد آ گیا ہے 

کسی کا خوبصورت شعر سن کر 
ترا لطف سخن یاد آ گیا ہے 

ملے وہ اجنبی بن کر تو رفعتؔ 
زمانے کا چلن یاد آ گیا ہے

رفعت سلطان


 

Sunday, March 5, 2023

رشید لکھنوی

یوم پیدائش 05 مارچ 1847

ہم اجل کے آنے پر بھی ترا انتظار کرتے
کوئی وعدہ سچ جو ہوتا تو کچھ اعتبار کرتے

جو نہ صبر اور دم بھر ترے بے قرار کرتے
ابھی برق کا طریقہ فلک اختیار کرتے

اگر اتنی بات سنتے کہ ہے عشق میں مصیبت
کبھی ہم نہ تیری خاطر دل بے قرار کرتے

دل زار بے خبر تھا کیا قتل تو مزا کیا
یہ سپہ گری ہے پہلے اسے ہوشیار کرتے

یہی چاہتے ہیں اے جاں مٹے غم کہ جان جائے
ابھی موت گر نہ آتی ترا انتظار کرتے

غم و درد و رنج سہہ کے تجھے دیتے ہم دل اپنا
انہیں بے وفائیوں پر ترا اعتبار کرتے

جو سفر کا وقت آیا نہ پکارے ساتھ والے
ابھی آنکھ لگ گئی تھی ہمیں ہوشیار کرتے

جو خلاف امید کے ہو تو شکستہ خاطری ہے
کئی ٹکڑے دل کے ہوتے جو تم ایک وار کرتے

وہ نہ آئے مر گئے ہم اگر آتے بھی تو کیا تھا
یہی جان صدقے کرتے یہی دل نثار کرتے

ہمیں جان دے کے مارا ہمیں دے کے دل مٹایا
نہ غم فراق ہوتا نہ خیال یار کرتے

وہ ادا تھی قتل گہہ میں کہ بیان سے ہے باہر
مرے دل پہ زخم پڑتا وہ کسی پہ وار کرتے

تری سمت کی توجہ نہ کبھی جہان فانی
جو ذرا ثبات پاتے تو کچھ اعتبار کرتے

خبر اس کی پہلے ہوتی کہ نہ آئے گا یہ ہم کو
تو رشیدؔ شعر کا فن نہ ہم اختیار کرتے

رشید لکھنوی



Wednesday, March 1, 2023

سلیم فوز

یوم پیدائش 28 فروری 1965

وہ رعُونت ہے کہ ہر شخص فغاں کھینچتا ہے
دیکھنا یہ ہے خدا ڈور کہاں کھینچتا ہے

تیرے دشمن ہیں ترے اپنے وزیر اور مُشیر
اور تُو اپنی رعایا پہ کماں کھینچتا ہے

دیکھ مت بول بڑے بول مخالف کے خلاف 
وقت حاکم کی بھی گُدّی سے زباں کھینچتا ہے 

سَر چھپانے کو جگہ بھی نہ ملے گی صاحب
آسمانوں پہ کمنّدیں تُو جہاں کھینچتا ہے

جان کے درپےہے اتنا بھی نہیں جانتا تُو
اک فرشتہ ہے معیّن کہ جو جاں کھینچتا ہے

سلیم فوز


 

جاوید عباس

یوم پیدائش 28 فروری 1957

قوم ایک عمارت ہے معمار معلم ہے
انسان کی عظمت کا مینار معلم ہے

تعلیم کے زیور کا زرگر ہے زمانے میں
تعلیم وہ تعلّم کا سردار معلم ہے

وہ قوم حوادث اور طوفاں سے نہیں ڈرتی
جس قوم کی کشتی کا پتوار معلم ہے

ہے علم اجالے کا پرنور سمندر بھی
اور جلوہ گرِ علم و افکار معلم ہے

جو علم سے انساں کو کندن ہے بناتا
وہ قوم کا سرمایہ، فنکار معلم ہے

جاوید معلم کی ہو شان بیاں کیسے
طلباء کے لیے چشمہِ انوار معلم ہے

جاوید عباس


 

ہاشم بلال

یوم پیدائش 28 فروری 

زباں پہ نام وہ رہتا ہے ذکر کی صورت
کہ گہرا ہے جو ارسطو کی فکر کی صورت

مرے لحاف میں خوشبو قیام کرتی ہے
گو سبز خواب ہیں آنکھوں میں عطر کی صورت

بکاؤ دنیا کی حالت ہے دیدنی ہاشم 
سجی ہوئی ہے یہ بازارِ مصر کی صورت

ہاشم بلال


 

شاہینہ خاتون شاہجہانپوری

یوم پیدائش 28 فروری 

دارِ فنا ہے یہ نہ مسافر ٹھہر گئے
ہم سوچتے رہے کہ زمانے گزر گئے

کیوں آجتک نہیں کیا اپنا محاسبہ
کتنی صدایئں ٹوٹ گیئؔن ہم بکھر گئے

جب رہروانِ شوق تھے منزل بھی مل گئ
شوقِ جنوں میں ہم بھی فلک سے گزر گئے

جو حق پرست تھے یہاں لنگر جلا دیئے
ٹکراکے ان کے عزم سے کتنے بھنور گئے

شاہینہ خاتون شاہجہانپوری


 

صبا نویدی

یوم پیدائش 28 فروری 1942

میں جس کا منتظر ہوں وہ منظر پکار لے
شاید نکل کے جسم سے باہر پکار لے

میں لے رہا ہوں جائزہ ہر ایک لہر کا
کیا جانے کب یہ مجھ کو سمندر پکار لے

صدیوں کے درمیان ہوں میں بھی تو اک صدی
اک بار مجھ کو اپنا سمجھ کر پکار لے

میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے

شیشے کی طرح وقت کے ہاتھوں میں ہوں ہنوز
کب جانے حادثات کا پتھر پکار لے

وہ لمحہ جس کی ذہن صباؔ کو تلاش ہے
رونے کے اہتمام میں ہنس کر پکار لے

صبا نویدی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...