Urdu Deccan

Tuesday, July 4, 2023

رحمان راہی

یوم پیدائش 06 اپریل 1925

بہت آئے مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے
ہماری طرح جو انکے لب و رخ تک گذرآئے

فریب جستجو ہے یہ کہ ہے تکمیل نظارہ
نگاہ شوق جس جانب اٹھی تم ہی نظر آئے

نظر آیا نہ شام بے کسی پرسان غم کوئی
اجالا پھیلتے ہی کس قدر سائے ابھر آئے

سمیٹے ہی رہے کانٹوں کے ڈر سے لوگ دامن کو
صبا کی طرح ہم تو وادئ گل سے گذر آئے

نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گذرے ہیں
کہیں پھر جاکے راہی ہم کو آداب سفر آئے

رحمان راہی 


 

محمد اشفاق چغتائی

یوم پیدائش 05 مئی 1958

اِترائی ہوئی خاک سے کہہ دے کوئی
افلاک کے تیراک سے کہہ دے کوئی
فرعون ہے عبرت کا نمونہ اشفاق
یہ طاقتِ سفاک سے کہہ دے کوئی

محمد اشفاق چغتائی 



مسعود تنہا

یوم پیدائش 05 مئی 1978

اس شہر نگاراں میں کوئی تجھ سا نہیں ہے 
میں کیسے بتاؤں تجھے تو کتنا حسیں ہے 

پھولوں کا گداز اک ترے پیکر کا حوالہ 
مہتاب سے بڑھ کر تری رخشندہ جبیں ہے 

خوشبو ترے سانسوں کی رچی ہے رگ و پے میں 
محسوس یہی ہوتا ہے تو میرے قریں ہے 

کم ملنے کا احساس گراں لگتا ہے تیرا 
اب لطف و کرم بھی ترا پہلے سا نہیں ہے 

وہ جھیل کی پہنائی میں اک قطرہ ہے لیکن 
رک جاتا ہے جب پلکوں پہ آ کر تو نگیں ہے 

ذکر غم دل اوروں سے اچھا نہیں لگتا 
یہ درد محبت تو مرے دل کا مکیں ہے 

ہنستا ہوا ملتا تھا سدا بزم میں تنہاؔ 
اب جانے وہ کیوں اتنا اداس اور حزیں ہے

مسعود تنہا


 

فائق اعوان

یوم پیدائش 05 مئی 1999

پروردگار! تجھ سے ہے اتنی سی التجا
گزرے دنوں کی یاد نہ اب کے برس میں ہو

فائق اعوان
 

علیم اسرار

یوم پیدائش 05 مئی 1976

سمٹے ہوئے ہیں فہم و ادراک دائرے میں
یعنی ہیں قید سارے چالاک دائرے میں

ارمان و آرزو ہیں پرکار زندگی پر
شدت سے گھومتا ہے ہر چاک دائرے میں

تمثیل لگ رہی ہے یارو مگر یہ سچ ہے
خوشیاں ہیں آدمی کی نمناک دائرے میں 

تجدید ہو رہی ہے گردش کے واسطے سے 
رہتے نہیں ہمیشہ خاشاک دائرے میں 

مالک مکاں کے بدلے کچھ دائروں کو باندھے 
دنیا کی جستجو نے املاک دائرے میں 

باہر نکلنا اس کے ممکن نہیں ہے لیکن 
کھنچو گے کچھ لکیریں بیباک دائرے میں 

رفتار بے بسی کی اسباب کی مسافت 
یہ کھیل ہے پرانا سفاک دائرے میں 

راز حیات کا ہے یہ مختصر سا قصہ 
اسرار تیرتے ہیں تیراک دائرے میں 

علیم اسرار


 

جوہر امیٹھوی

یوم پیدائش 04 مئی 1947

کوئی گستاخی نہ ہو اے خواہش دل دیکھ کر
شکوۂ غم حق مگر آداب محفل دیکھ کر

گھٹ کے رہ جاتا ہے اظہار محبت کا خیال
حُسن کے شہروں میں بازار سلاسل دیکھ کر

رشتۂ الفت ابھی اچھی طرح ٹوٹا نہیں
دل دھڑکتا ہے ابھی اُنکو مقابل دیکھ کر

بل نہ پڑجائیں جبین شمع محفل پر کہیں
دیکھ پروانے ذرا آداب محفل دیکھ کر

انکی کشتی ہوگئی موجوں کی شوخی کا شکار
ہو گئے جو بے عمل آثارِ ساحل دیکھ کر

کل یہ ممکن ہے کہ آنسو بھی نہ جوھر ہاتھ آئیں
آج رو لینے دو دنیا کو مرادل دیکھ کر 

جوہر امیٹھوی




 

آفاق صدیق

یوم پیدائش 04 مئی 1928

کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں 
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں 

دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں 

پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے 
اب غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں 

کیا قیامت ہے کہ اپنے دیس میں 
اعتبار جسم و جاں کچھ بھی نہیں 

کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے 
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں 

ایک احساس محبت کے سوا 
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں 

کوئی موضوع سخن ہی جب نہ ہو 
صرف انداز بیاں کچھ بھی نہیں

آفاق صدیق




 

صغیر اشرف

یوم پیدائش 03 مئی 1949

خواہشوں کی داستاں لکھتے رہے
ہم زمیں کو آسما ں لکھتے رہے

خواب جو کل تک تھے آنکھوں میں نہاں
ان کو گھر انگنائیاں لکھتے رہے

ٹوٹ کر بچپن میں چاہا تھا جسے
اس کو ہم جانِ جہاں لکھتے رہے

عمر بھر سوچا کئے جس کے تئیں
آپ اس کو خانداں لکھتے رہے
                  
لکھنا تھا تاریخ پہ اشرف ہمیں
برگِ گل کو گلستاں لکھتے رہے

 صغیر اشرف



سیدہ تسلیم علی

یوم پیدائش 03 مئی 1980

مومن کو وسوسوں سے بچاتا وہی تو ہے
رستہ سبھی کو سیدھا دکھاتا وہی تو ہے

قبضہ میں کائنات کے سارے نظام ہیں
"سوکھی زمیں پہ سبزہ اگاتا وہی تو ہے"

ہے کار ساز وہ ہی اسی کے ہیں کھیل سب
 ارض و سما پہ جلوہ دکھاتا وہی تو ہے
 
 یکتا ہے اس کی ذات نہیں کوئی بھی شریک
سب دہر کا نظام چلاتا وہی تو ہے

قادر بھی ہے مرید بھی مدرک بھی ہے وہی
 لیل و نہار جلوے دکھاتا وہی تو ہے 

سامع ہے سرمدی ہے لطیف و خبیر بھی
بندوں کے سارے عیب چھپاتا وہی تو ہے

 قادر ہے دوجہان پہ تسلیم جس کی ذات
 یہ رات دن گھٹاتا بڑھاتا وہی تو ہے 
 
سیدہ تسلیم علی


 

عمران میر

یوم پیدائش 03 مئی 

 آگ پانی میں لگنے والی ہے
کشتیاں ساحلوں پہ لے آو

عمران میر


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...