Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

سراج زیبائی

 یوم پیدائش 15 فروری 1955


ملک میں سکھ ہیں ،ہندو ،  مسلمان ہیں

سچ یہی ہے کہ ہم پہلے انسان ہیں


ہم بھگت سنگھ ، گاندھی کی پہچان ہیں

میر عبدالحمید اور عثمان ہیں


دیش کو بانٹنےمیں ہیں مصروف جو

ان کا کردار کہتا ہے شیطان ہیں


ارضِ ہندوستاں تو سلامت رہے

دل کی دھڑکن ہے تو ، ہم تری جان ہیں


جسم سے روح کیسے جدا ہو بھلا

رام تو ہے اگر ، ہم بھی رحمان ہیں


اپنے اجداد نے کل بہایا تھا جو

ہم اسی خون کا آج اعلان ہیں


ہم کو ہلچل سمجھنا ہے مشکل بہت

سخت کتنےہیں ہم کتنےآسان ہیں


عبدالرحیم ہلچل


عبد الرحیم ہلچل

 یوم پیدائش 15 فروری 1955


ملک میں سکھ ہیں ،ہندو ، مسلمان ہیں

سچ یہی ہے کہ ہم پہلے انسان ہیں


ہم بھگت سنگھ ، گاندھی کی پہچان ہیں

میر عبدالحمید اور عثمان ہیں


دیش کو بانٹنےمیں ہیں مصروف جو

ان کا کردار کہتا ہے شیطان ہیں


ارضِ ہندوستاں تو سلامت رہے

دل کی دھڑکن ہے تو ، ہم تری جان ہیں


جسم سے روح کیسے جدا ہو بھلا

رام تو ہے اگر ، ہم بھی رحمان ہیں


اپنے اجداد نے کل بہایا تھا جو

ہم اسی خون کا آج اعلان ہیں


ہم کو ہلچل سمجھنا ہے مشکل بہت

سخت کتنےہیں ہم کتنےآسان ہیں


عبدالرحیم ہلچل


محمد وسیم سدوی

 یوم پیدائش 15 فروری 1982


اپنی آزادی اور وقار کو دیکھ

اے اسیرِ قفس نہ خار کو دیکھ


عارضی زندگی کا راگ نہ چھیڑ

دائمی عمر و برگ زار کو دیکھ


تیغ زن تجھ کو تھی جو حسرتِ دید

پس تو بسمل کے خوں فشار کو دیکھ


مجھ سے مت پوچھ یورشِ افلاس

بس یکم اور مکان دار کو دیکھ


کیوں نظر پھیرتا ہے تو مجھ سے

اب تحمل سے اضطرار کو دیکھ


کیوں اسیرِ قفس نہیں اڑتا ؟

اپنے کھینچے ہوئے حصار کو دیکھ


نہ صداؤں پہ کان دھر سِدْوی

رحم مت کر قصور وار کو دیکھ


محمد وسیم سِدْوی


صغیر ملال

 یوم پیدائش 15 فروری 1941


کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے

شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے


دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں

کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے


کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو

واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے


ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے

پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے


جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا

دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے


واقعی نور لیے پھرتے ہیں سر پہ کوئی

اپنے اطراف جو سایہ نہیں رہنے دیتے


زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملالؔ

کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے


صغیر ملال


شاہد میر

 یوم پیدائش 15 فروری 1949


اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے

یا چھلکتی ہوئی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے


تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے

آ کسی دن مرے احساس کو پیکر کر دے


قید ہونے سے رہیں نیند کی چنچل پریاں

چاہے جتنا بھی غلافوں کو معطر کر دے


دل لبھاتے ہوئے خوابوں سے کہیں بہتر ہے

ایک آنسو کہ جو آنکھوں کو منور کر دے


اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن

میری چادر مرے پیروں کے برابر کر دے


شاہد میر


طالب خوند میری

 یوم پیدائش 14 فروری 1938

نظم ابلیس کا اعتراف


تو نے جس وقت یہ انسان بنایا یا رب

اُس گھڑی مجھ کو تو اِک آنکھ نہ بھایا یارب

اس لیے میں نے، سر اپنا نہ جھکایا یارب

لیکن اب پلٹی ہےکچھ ایسی ہی کایا یا رب


عقل مندی ہے اسی میں کہ میں توبہ کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


ابتداً تھی بہت نرم طبیعت اس کی

قلب و جاں پاک تھے،شفاف تھی طینت اس کی

پھر بتدریج بدلنے لگی خصلیت اس کی

اب تو خود مجھ پہ مسلط ہے شرارت اس کی


اس سے پہلے کہ میں اپنا ہی تماشا کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


بھر دیا تُو نے بھلا کون سا فتنہ اس میں

پکتا رہتا ہے ہمیشہ کوئی لاوا اس میں

اِک اِک سانس ہے اب صورتِ شعلہ اس میں

آگ موجود تھی کیا مجھ سے زیادہ اس میں


اپنا آتش کدۂ ذات ہی ٹھنڈا کر لوں !

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں !


اب تو یہ خون کے بھی رشتوں سے اکڑ جاتا ہے

باپ سے ، بھائی سے، بیٹے سےبھی لڑ جاتا ہے

جب کبھی طیش میں ہتھے سے اوکھڑ جاتا ہے

خود مِرے شر کا توازن بھی بِگڑ جاتا ہے


اب تو لازم ہے کہ میں خود کو سیدھا کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


میری نظروں میں تو بس مٹی کا مادھو تھا بَشر

میں سمجھتا تھا اسے خود سے بہت ہی کمتر

مجھ پہ پہلے نہ کھُلے اس کے سیاسی جوہر

کان میرے بھی کُترتا ہے یہ قائد بن کر


شیطانیت چھوڑ کے میں بھی یہی دھندا کر لُوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


جِھجکتا ہے ، نہ ڈرتا ہے ،نہ شرماتا ہے

نِت نئی فتنہ گری روز ہی دکھلاتا ہے

اب یہ ظالم ، میرے بہکاوے میں کب آتا ہے

میں بُرا سوچتا رہتا ہوں ، یہ کر جاتا ہے


کیا ابھی اس کی مُریدی کا ارادہ کر لوں!

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


اب جگہ کوئی نہیں میرے لیے دھرتی پر

مِرے شر سے بھی سِوا ہے یہاں انسان کا شر

اب تو لگتا ہے یہی فیصلہ مُجھ کو بہتر

اس سے پہلے کہ پہنچ جائے وہاں سپر پاور


میں کسی اور ہی سیّارہ پر قبضہ کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


ظُلم کے دام بچھائے ہیں نرالے اس نے

نِت نئے پیچ مذاہب میں ڈالے اِس نے

کر دیئے قید اندھیروں میں اجالے اس نے

کام جتنے تھے مِرے ، سارے سنبھالے اس نے


اب تو میں خود کو ہر اِک بوجھ سے ہلکا کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں


طالب خوند میری


مصور حیات

 یوم پیدائش 14 فروری


گرد چھٹ جائے گی منظر سےدکھائی دے گا

میرا چہرہ تمہیں چھت پر سے دکھائی دے گا


تو اگر دیکھے خدا آئے گا مسجد سے نظر

تو اگر دیکھے گا مندر سے دکھائی دے گا


دشت کی ریت میں شامل ہے لہو مجنوں کا

اور یہ محلوں کے اوپر سے دکھائی دے گا


ہجر کی رات بھی کٹ جائے گی آخر اک دن

اور سورج مجھے اندر سے دکھائی دے گا


مصور حیات


شہنواز شبلی

 یوم پیدائش 14 فروری 1965 


زمانے ہوں گے میری دسترس میں 

تمہارے قرب کا لمحہ نہ ہوگا 


شہنواز شبلی


انور بارہ بنکوی

یوم پیدائش 14فروری 1946


آ تجھے لہو دے کر پھر دلہن بنادوں میں

زندگی نکھرتی ہے زندگی کے پانے سے


انور بارہ بنکوی


شفقت کاظمی

 یوم پیدائش 14 فروری 1914


ہر گھڑی کرب مسلسل میں کٹی جاتی ہے 

زندگی اپنے گناہوں کی سزا پاتی ہے 


یاد آؤں کہ نہ آؤں مری قسمت لیکن 

ان سے امید ملاقات چلی جاتی ہے 


یوں مرے بعد ہے دنیا پہ اداسی طاری 

جیسے دنیا مرے حالات کا غم کھاتی ہے 


جب بھی آتا ہے تصور ترے انسانوں کا 

ایک فریاد مرے منہ سے نکل جاتی ہے 


خوش رہو دشت تمنا کی ہواؤ کہ مجھے 

تم سے بچھڑے ہوئے یاروں کی مہک آتی ہے 


زندگی میں کئی ایسے بھی ملے تھے ساتھی 

روح اب جن کے تصور سے بھی گھبراتی ہے 


غور کرتا ہوں جو شفقتؔ کبھی تنہائی میں 

اپنے حالات پہ تا دیر ہنسی آتی ہے


شفقت کاظمی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...