Urdu Deccan

Friday, April 23, 2021

شاعر علی راحل

 اِس کارِ محبت میں تجارت نہیں کی ہے

حاصل کوئی اِس فن میں مہارت نہیں کی ہے


جب کر دیا ! سرخم ترے ہر حکم کے آگے

 پھر حکم عدولی کی جسارت نہیں کی ہے

 

جو رنج و الم سے کرے دو چار کسی کو

ایسی کبھی ہم نے تو شرارت نہیں کی ہے


مٹّی سے بنایا گیا تھا حضرتِ آدم

  یہ سوچ کے مٹّی سے حقارت نہیں کی ہے


کب تک ترے دیدار کوترسیں گی یہ آنکھیں 

اِک عرصہ ہُوا تیری زیارت نہیں کی ہے


اُلفت کا سبق دے کے اُتارا تھا زمیں پر

 کی سب سے محبت ہی حقارت نہیں کی ہے


جُھوٹے ہیں ترے وعدے یہ معلوم تھا رَاحِلؔ

سو جھوٹ پہ تعمیر عمارت نہیں کی ہے


شاعر علی رَاحِلؔ


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...