چھن گیا سائباں دربدر ہو گیا
مرگئی جب سے ماں دربدر ہو گیا
شہر بھی ہے وہی لوگ بھی ہیں وہی
ڈھونڈتے آشیاں دربدر ہو گیا
ہر گلی ہر سڑک دیکھی بھالی مری
ہاۓ قسمت کہاں دربدر ہو گیا
کوئلوں بلبلوں کا جو تھا ہم نوا
دیکھ لے باغباں دربدر ہو گیا
جھڑکیوں ہچکیوں کے سفر میں رہا
بخت کے درمیاں دربدر ہو گیا
اوڑھ کر وحشتیں پھرتا ہوں کوبہ کو
ٹھہروں میں اب کہاں در بدر ہو گیا
دکھ بھری زندگی لٹ گئی ہر خوشی
بول کر داستاں دربدر ہو گیا
اپنے حالات کا ستایا ہوا
آج مالک مکاں دربدر ہو گیا
نیاز احمد عاطر
No comments:
Post a Comment