Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

یاسین باوزیر

 اک شخص دل میں رہ کہ بھی دلبر نہ بن سکا

مٸے جس میں پیار کی ہو وہ ساغر نہ بن سکا


پھر یوں ہوا کہ عشق کی بازی پلٹ گئی

جب میں مرے رقیب سے بہتر نہ بن سکا


پیوست ہو جگر میں جو مثلِ نگاہِ یار

ایسا تو آج تک کوئی خنجر نہ بن سکا 


ڈگری تو تھی مگر اُنھیں رشوت نہ دے سکا

مزدور بن گیا ہوں میں ٗ افسر نہ بن سکا 


بہتر وہ دوسروں سے بنے بھی تو کس طرح

جو شخص اپنے آپ سے بہتر نہ بن سکا


کیکر یہ چاہتا ہیکہ بن جاے وہ گلاب

شکوہ گلاب کو ہے وہ کیکر نہ بن سکا


یاسین شاعری کے لئے چاہئے ہنر 

ہر عشق کرنے والا سخنور نہ بن سکا


یاسین باوزیر


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...