جب نکلتا ہے ترے شہر سے رستہ کوئی
سامنے دشت نظر آتا ہے پیاسا کوئی
اتنی شدت ہے مرے ضبط کی برسات میں دیکھ
میرے اندر سے امڈ آیا ہے دریا کوئی
لوگ ملتے ہیں نئے چہرے بدل کر مجھ سے
روز ہوتا ہے مرے ساتھ تماشہ کوئی
جب بھی ملتی ہے گلابوں کے کٹوروں سے صبا
تیرے لہجے میں لگے جیسے ہے ہنستا کوئی
تم مرے سانسوں کی ڈوری سے بندھے رہتے ہو
کیسیے کہہ دوں مرا تم سے نہیں رشتہ کوئی
میں اسے کیوں بھلا منسوب صنوبر سے کروں
تیری قامت سا دکھائے جو نہ نقشہ کوئی
اقبال شاہ
No comments:
Post a Comment