Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

اقبال شاہ

 جب نکلتا ہے ترے شہر سے رستہ کوئی

سامنے دشت نظر آتا ہے پیاسا کوئی


اتنی شدت ہے مرے ضبط کی برسات میں دیکھ

میرے اندر سے امڈ آیا ہے دریا کوئی


لوگ ملتے ہیں نئے چہرے بدل کر مجھ سے

روز ہوتا ہے مرے ساتھ تماشہ کوئی


جب بھی ملتی ہے گلابوں کے کٹوروں سے صبا

تیرے لہجے میں لگے جیسے ہے ہنستا کوئی 


تم مرے سانسوں کی ڈوری سے بندھے رہتے ہو 

کیسیے کہہ دوں مرا تم سے نہیں رشتہ کوئی


میں اسے کیوں بھلا منسوب صنوبر سے کروں 

تیری قامت سا دکھائے جو نہ نقشہ کوئی 


اقبال شاہ


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...