دِل، کہ روتا رہا تھا جلنے تک
گُل تھے خنداں مگر مسلنے تک
میری سانسیں تلک تمہاری ہیں
میں تمہارا ہوں دَم نکلنے تک
ہوش آتے لگے گی تھوڑی دیر
بس ذرا تھام لو سنبھلنے تک
تم نہیں ہو تو یہ بہار ہی کیا
کاش! آجاؤ رُت بدلنے تک
مات کھا جاؤں گا یہ طے ہے مگر
دَم تو لینے دو چال چلنے تک
جب سُلگنا ہی ہے مقدّر میں
شمع روتی ہے کیوں پگھلنے تک
ہونے والی ہے صبحِ نَو طالعِ
یہ اندھیرے ہی رات ڈھلنے تک
محمد عارف
No comments:
Post a Comment