Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

محمد عارف

 دِل، کہ روتا رہا تھا جلنے تک

گُل تھے خنداں مگر مسلنے تک


میری سانسیں تلک تمہاری ہیں

 میں تمہارا ہوں دَم نکلنے تک


 ہوش آتے لگے گی تھوڑی دیر

 بس ذرا تھام لو سنبھلنے تک


تم نہیں ہو تو یہ بہار ہی کیا

 کاش! آجاؤ رُت بدلنے تک


مات کھا جاؤں گا یہ طے ہے مگر

دَم تو لینے دو چال چلنے تک


جب سُلگنا ہی ہے مقدّر میں

 شمع روتی ہے کیوں پگھلنے تک


 ہونے والی ہے صبحِ نَو طالعِ

 یہ اندھیرے ہی رات ڈھلنے تک


 محمد عارف


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...