یوم پیدائش 19 اگست 1952
واقعہ کوئی تو ہو جاتا سنبھلنے کے لیے
راستہ مجھ کو بھی ملتا کوئی چلنے کے لیے
کیوں نہ سوغات سمجھ کر میں اسے کرتا قبول
بھیجتے زہر وہ مجھ کو جو نگلنے کے لیے
اتنی سردی ہے کہ میں بانہوں کی حرارت مانگوں
رت یہ موزوں ہے کہاں گھر سے نکلنے کے لیے
چاہیے کوئی اسے ناز اٹھانے والا
دل تو تیار ہے ہر وقت مچلنے کے لیے
اب تو فاروقؔ اسی حال میں خوش رہتے ہیں
وقت ہے پاس کہاں اپنے بدلنے کے لیے
زبیر فاروقؔ
No comments:
Post a Comment