رِہ نوردِ شوق ہُوں اور رہگزر مشکل بھی ہے
مضطرب مَیں ہی نہیں ہوں مضطرب منزل بھی ہے
بچ کے آیا ہوں بھنور سے پھر بھی مَیں مشکل میں ہوں
کیونکہ میری گھات میں موجیں بھی تھیں ساحل بھی ہے
غم سے سینے کو مِرے چھلنی کیے دیتا ہے تُو
میرے سینے میں دھڑکتا دیکھ تیرا دل بھی ہے
دوستی کو دے رہے ہو فوقیت رشتوں پہ تم
دوستوں کے درمیاں ہی دیکھنا قاتل بھی ہے
حُسن سبقت لے گیا ہے چودھویں کے چاند پر
فرق اِتنا ہے کہ، اُن کے رُخ پہ کالا تل بھی ہے
نہ سمجھ پایا کبھی میں غم کی اِس تفریق کو
حاصلِ غم ہی مِرا شاید غمِ حاصل بھی ہے
محمد عارف
No comments:
Post a Comment