یوم پیدائش 24 اگست 1926
نظم قسمت کا پڑھنے والے
میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے
عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے
کون خفا ہے
راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ
آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ
گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ
رستہ کیا ہے منزل کیا ہے
میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے
ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے
میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان
عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان
کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان
ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے
شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے
جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے
چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس
آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس
خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس
دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے
گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے
فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے
جیلانی کامران
No comments:
Post a Comment