Urdu Deccan

Sunday, September 19, 2021

جیلانی کامران

 یوم پیدائش 24 اگست 1926

نظم قسمت کا پڑھنے والے


میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے 

عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے 

کون خفا ہے 

راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ 

آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ 

گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ 

رستہ کیا ہے منزل کیا ہے 

میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے 

ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے 

میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان 

عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان 

کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان 

ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے 

شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے 

جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے 

چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس 

آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس 

خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس 

دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے 

گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے 

فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے 


جیلانی کامران


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...