لوگ جب اپنے خیالات بدل دیتے ہیں
یک بیک ملک کے حالات بدل دیتے ہیں
دورِ مشکل کا کریں سامنا جو ہمت سے
شادمانی میں وہ صدمات بدل دیتے ہیں
ایک پہچان یہی دیکھی ہے کم ظرفوں میں
رُت کی مانند یہ جذبات بدل دیتے ہیں
سامنا جب بھی ہوا ان سے کسی محفل میں
اپنی آنکھوں سے اشارات بدل دیتے ہیں
پائی جاتی ہے حسینوں میں یہ فطرت یارو
یہ جدائی میں ملاقات بدل دیتے ہیں
ایسے لوگوں پہ بھلا کیسے بھروسہ کر لیں
بات ہی بات میں جو بات بدل دیتے ہیں
اپنے چہرے سے وہ گیسو کو ہٹا کر اے ثمر
نا گہاں دن میں ہی وہ رات بدل دیتے ہیں
سمیع احمد ثمرؔ
No comments:
Post a Comment