یوم پیدائش 06 نومبر
اپنی نادان خطاؤں پہ ہنسی آتی ہے
حُسن والوں کی اداؤں پہ ہنسی آتی ہے
ایک پر جوڑ نہیں سکتے کسی مچّھر کا
اِن زمانے کے خداؤں پہ ہنسی آتی ہے
وہ جو چلتی ہیں بُجھانے کو عقیدت کے چراغ
ایسی کم ظرف ہواؤں پہ ہنسی آتی ہے
یہ جو اخلاص سے خالی ہے تگ و دو دن رات
ایسے سجدوں پہ دعاؤں پہ ہنسی آتی ہے
کیا اثر ہو گا دوا کا یہ خُدا ہی جانے
سوچتا ہوں تو دواؤں پہ ہنسی آتی ہے
حال دنیا کا اسد دیکھ کے روتا ہے دل
اور اِن راہ نماؤں پہ ہنسی آتی ہے
اسد اقبال
No comments:
Post a Comment