Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

کرشن بہاری نور

 یوم پیدائش 08 نومبر 1925


زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں


اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں

میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں


زندگی موت تیری منزل ہے

دوسرا کوئی رستہ ہی نہیں


سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے

جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں


زندگی اب بتا کہاں جائیں

زہر بازار میں ملا ہی نہیں


جس کے کارن فساد ہوتے ہیں

اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں


کیسے اوتار کیسے پیغمبر

ایسا لگتا ہے اب خدا ہی نہیں


چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو

آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں


اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے

نورؔ سنسار سے گیا ہی نہیں


کرشن بہاری نور


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...