یوم پیدائش 08 نومبر 1925
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی رستہ ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
زندگی اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
کیسے اوتار کیسے پیغمبر
ایسا لگتا ہے اب خدا ہی نہیں
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نورؔ سنسار سے گیا ہی نہیں
کرشن بہاری نور
No comments:
Post a Comment