یوم پیدائش 01 نومبر 1955
شبِ فراق میں تارے تمام رکھے گئے
اسی میں ہجر تمہارے تمام رکھے گئے
غمِ حیات میں فرحت قدم قدم پہ رہی
خوشی خوشی میں خسارے تمام رکھے گئے
نظر نظر میں رہا ہے جو پانیوں کا گماں
انہیں میں ریت کنارے تمام رکھے گئے
ہوا نہ کوئی ہمارے نصیب میں ہندسہ
صفر صفر ہی سہارے تمام رکھے گئے
خیال جو بھی جہاں میں تھے بد گمانی کے
مری ہی ذات کے بارے تمام رکھے گئے
نظر کے پاس رہا ہے یہ تیرگی کا سماں
نظر سے دور نظارے تمام رکھے گئے
حیا کے پتلوں کی یہ خامشی سمجھنے کو
خموشیوں میں اشارے تمام رکھے گئے
عبیداللہ توحیدی
No comments:
Post a Comment