یوم پیدائش 16 دسمبر 1913
بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں
زیر قدم ہے کہکشاں ذوق نظر کو کیا کروں
تیز ہے کاروان وقت تشنہ ہے جستجو ابھی
روک لوں زندگی کہاں شام و سحر کو کیا کروں
دیر و حرم کے رنگ بھی دیکھ چکی نگاہ زیست
دل میں تو ہے وہی چبھن آہ سحر کو کیا کروں
آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں
یاد کسی کی آ گئی ہو گئی دھندلی کائنات
پردے میں چھپ گیا کوئی دیدۂ تر کو کیا کروں
کتنی امیدوں کے چراغ راہ میں بجھ کے رہ گئے
اپنے تو پاؤں تھک گئے شوق سفر کو کیا کروں
ہو گئی زندگی کی شام سالکؔ راہ تھک گئے
منزلیں دور ہو گئیں راہ گزر کو کیا کروں
سالک لکھنوی
No comments:
Post a Comment