Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

سالک لکھنوی

 یوم پیدائش 16 دسمبر 1913


بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں

زیر قدم ہے کہکشاں ذوق نظر کو کیا کروں


تیز ہے کاروان وقت تشنہ ہے جستجو ابھی

روک لوں زندگی کہاں شام و سحر کو کیا کروں


دیر و حرم کے رنگ بھی دیکھ چکی نگاہ زیست

دل میں تو ہے وہی چبھن آہ سحر کو کیا کروں


آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام

منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں


یاد کسی کی آ گئی ہو گئی دھندلی کائنات

پردے میں چھپ گیا کوئی دیدۂ تر کو کیا کروں


کتنی امیدوں کے چراغ راہ میں بجھ کے رہ گئے

اپنے تو پاؤں تھک گئے شوق سفر کو کیا کروں


ہو گئی زندگی کی شام سالکؔ راہ تھک گئے

منزلیں دور ہو گئیں راہ گزر کو کیا کروں


سالک لکھنوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...