یوم پیدائش 15 دسمبر 1962
دیدہ و دل میں نہیں رنگ۔نمو اب کوئی
ورنہ کھلتا مرے ہونٹوں پہ گل۔لب کوئی
دل میں در آتے ہیں جذبات چکوروں جیسے
چاند سا مجھ میں نکلتا ہے سر۔شب کوئی
دشت نے کھل کے بتا دی ہے کہانی ساری
کیسے پاتا ہے یہاں قیس کا منصب کوئی
ایک قطرہ بھی مرا مجھ میں نہیں رہ پاتا
ایسے بھرتا ہے مجھے خود سے لبالب کوئی
تب کھلے گا میں سفر میں نہیں جنجال میں ہوں
میرے قدموں سے ملائے گا قدم جب کوئی
بے سروپا تھی مگر تجھ سے ہوئی ہے منسوب
اب نکل آئے گا اس بات سے مطلب کوئی
بات بنتی نظر آتی نہیں باتوں سے کبیر
اب دکھانا ہی پڑے گا ہمیں کرتب کوئی
کبیر اطہر
No comments:
Post a Comment